ظلم کے سائے میں امید کی شمع،سمی دین بلوچ کی داستان : تحریر _ عبیداللہ بلوچ

تاریخ کے ہر دور میں مظلوم قوموں کی لڑکیاں ایک ایسی روشنی بن کر ابھری ہیں جو ظلم کے اندھیروں کو چیر کر اپنے لوگوں کے لئے آزادی کی شمع جلانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ آج بلوچ قوم کی ایک ایسی ہی بیٹی، سمی دین بلوچ، ایک سچے جدوجہد کی علامت کے طور پر کھڑی ہے۔ اس کی آواز اُس ہر شخص کی آواز ہے جو جبر و ظلم کا شکار ہوا ہے۔ سمی کی داستان، اس کے درد، اس کی مظلومیت اور اس کی جرات نے بلوچستان کے ہر کونے میں آزادی اور انصاف کی پکار کو زندہ رکھا ہے۔

15 سالوں سے سمی دین بلوچ اپنے والد دین جان کے جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ یہ سمی کا عزم اور حوصلہ ہے کہ اس نے بلوچستان کے نامعلوم راستوں، تپتے صحراؤں اور تاریک راتوں میں بھی اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کو جاری رکھا ہے۔ آواران جیسے دور افتادہ اور بنیادی سہولیات سے محروم علاقے میں بھی، سمی نے خود کو ان مظلوموں کا حصہ بنا دیا ہے جو اپنے پیاروں کی تلاش میں نکلے ہیں۔ اس کی آواز ان سبھی کے دلوں میں گونجتی ہے جو کسی نہ کسی طور پر اپنے حقوق کی پامالی کا شکار ہوئے ہیں۔

اس کی جدوجہد کو دیکھ کر ویتنام کی ان کامریڈ لڑکیوں کی یاد آتی ہے جنہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے جان کی بازی لگائی۔ جب سامراجی طاقتیں ان پر ٹوٹ پڑیں، تو ویتنام کی خواتین اپنے ہی دیس کی آزادی کے لئے دشمن کی گولیوں کا سامنا کرتی رہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں کو چھوڑا، اپنے بچوں کو پیچھے چھوڑا اور ہتھیار اٹھا کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان کی بہادری نے ایک مضبوط پیغام دیا کہ خواتین کسی بھی جنگ میں نہ صرف برابر کی حصہ دار ہو سکتی ہیں بلکہ میدان میں مقابلہ بھی کر سکتی ہیں۔ ان کے عزم نے پوری دنیا کو دکھایا کہ طاقت اور جرات جنس کی محتاج نہیں۔

اسی طرح، امریکی انقلاب کے وقت، خواتین نے اپنی آوازوں کو بلند کیا۔ ایک مشہور مثال ایک نوجوان لڑکی، فلیس ویتھ کی ہے، جو آزادی کی جستجو میں شامل ہوئی۔ اس نے آزادی کے نعروں کو گلی کوچوں تک پہنچایا اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے سامراجی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوئی۔ اس کی جرات اور قربانی نے امریکی عوام کے دلوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی اور انہیں مظلومیت کے اندھیروں سے نکالنے کی جستجو میں مدد دی۔

سمی دین بلوچ کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس نے اپنے ذاتی غم کو قوم کی آواز بنا دیا۔ جبری گمشدگیوں کے اندھیرے میں، وہ ایک امید کی کرن بن کر ابھری ہے۔ اس کی جرات نے بلوچ قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ جبر و استحصال کے خلاف کھڑے ہونا کوئی آسان کام نہیں، لیکن سچ کی تلاش اور حق کی جدوجہد کا راستہ ضرور ملتا ہے۔ اس نے اپنے آنسوؤں کو ایک نئے جوش اور جذبے میں ڈھال کر ایک طوفان کی شکل دے دی ہے جو ان تمام ظالم قوتوں کے خلاف اٹھ رہا ہے جو بلوچ قوم کو اس کے حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں ایسی اور بھی مثالیں ہیں جہاں خواتین نے ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ ہندوستان میں، جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے انگریزی سامراج کے خلاف اپنی تلوار سے بغاوت کا اعلان کیا۔ اس نے اپنے بچوں کو اپنے پیچھے چھوڑا اور خود میدان جنگ میں اتر گئی۔ اس کی بہادری نے ہندوستان کے آزاد منش افراد کو تحریک دی اور انگریزی سامراج کی جڑیں ہلا دیں۔ آج بھی، اس کی قربانی کی کہانی تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف میں لکھی جاتی ہے۔

فرانس کی ژاں دارک کو کون بھول سکتا ہے؟ اس نوجوان لڑکی نے، اپنے لوگوں کو آزاد کرانے کے لئے، اپنی جان قربان کر دی۔ اس کی جرات اور شجاعت نے فرانس کے لوگوں کو سامراجی استحصال کے خلاف کھڑا ہونے کی تحریک دی۔ اسی طرح سمی دین بلوچ بھی اپنی قوم کے لئے ایک روشنی بن چکی ہے جو اندھیروں کو چیر کر اپنے پیاروں کے لئے انصاف کی روشنی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آج دنیا کے کئی خطوں میں، خواتین نے اپنی جانیں دی ہیں مگر کبھی اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ ایران میں، مہرخاوا نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے خود کو قربان کیا۔ افغانستان میں، خواتین نے طالبان کے جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ فلسطین میں، نوجوان لڑکیاں اسرائیلی مظالم کے خلاف پتھر اٹھائے کھڑی رہیں۔ ان سب کی جدوجہد نے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت کی ہمت اور عزم کسی بھی استبدادی قوت کو چیلنج کر سکتی ہے۔

سمی دین بلوچ، بلوچستان کے ان ویران راستوں پر، جب اپنے والد کی تلاش میں نکلی، تو وہ محض ایک مظلوم بیٹی نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کی آواز بن چکی ہے۔ اس کی جرات نے بلوچستان کے ہر نوجوان کو جبر و استحصال کے خلاف اٹھنے کی تحریک دی ہے۔ وہ ان ہزاروں جبری گمشدگیوں کے شکار لوگوں کی ایک مثال بن چکی ہے جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے امید کی روشنی دیکھ رہے ہیں۔

آج، سمی دین بلوچ کی آواز صرف ایک فرد کی آواز نہیں، بلکہ وہ ایک قوم کی چیخ ہے جو انصاف کی طلب میں، سچائی کی جستجو میں اور آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی آرزو میں زندہ ہے۔ اگر آج اس کی آواز کو نہ سنا گیا، تو یہ آواز کل لاکھوں لوگوں کی بن جائے گی۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو ہر مظلوم قوم کے دل میں گونجتا ہے کہ جب جبر کی انتہا ہوتی ہے، تو مزاحمت کی لہر خود بخود پیدا ہوتی ہے۔

سمی دین بلوچ نے دنیا کو یہ دکھا دیا ہے کہ ایک مظلوم قوم کی بیٹی، جب سچائی کے لئے کھڑی ہوتی ہے، تو وہ کسی بھی ظالم قوت کے سامنے نہ جھکنے کا عزم رکھتی ہے۔ اس کی جدوجہد، اس کی قربانی، اور اس کی جرات ہر اس لڑکی کے لئے ایک مثال ہے جو اپنی مظلومیت کو اپنی طاقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سمی کی کہانی آج بھی جاری ہے، اور اس کی گونج، بلوچستان کے ہر پہاڑ، ہر وادی اور ہر دل میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گی۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

آواران کل جبری لاپتہ دلجان کی بازیابی کیلے جاری دھرنے کے مقام پر سیمنار کا انعقاد کیاجائے گا ۔بی وائی سی

منگل نومبر 26 , 2024
اواران ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مرکزی ترجمان کے اعلامیہ کے مطابق بروز بدھ صبح 10 بجے  27 نومبر 2024 کو آواران  میں جاری دھرنہ گاہ جس کی قیادت جبری  لاپتہ ہونے والے دل جان بلوچ کے اہل خانہ کر رہے ہیں۔ کےمقام پر ریاست […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ