شال بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتال کیمپ کو 5303 دن ہوگے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والے میں لیاری بہار کالونی سے سیاسی اور سماجی کارکنان محمد یوسف بلوچ عبداللہ بلوچ نے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جمہوریت اظہار کی آزادی انسانی حقوق اور قوموں کی حقوق کی پاسداری وہ دعوائے ہیں جنہیں پاکستانی حکمران داخلی خارجی سطح پر کرتے ہوئے نہیں تھکتے حکمرانوں کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ یہ دعویٰ کیا جاتا رہے کہ انہوں نے اعلیٰ انسانی جہموری مہذب اقدار کے نفاذ اور مختلف قوموں کے درمیان مساویا نہ حقوق اور باہمی ہم آہنگی کے تحت چلاتے ہیں ۔ لیکن مالیاتی سرمائے اور مخصوص بالادست مقتدرہ قوتوں کی آمریت جہموریت کے چڑھاے ہوئے نقاب سے پوری طرح چھپائی نہیں جاسکی ہے۔ اس نقاب کو بلوچستان میں سرکاری قوتوں کی طرف سے سنگین انسانی حقوق کی پامالی جسے بلوچ سماج میں بین الاقوامی سطح پر بد ترین جنگی جرائم قرار دیا جارہا ہے نے تار تار کردیا ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ اس ضمن میں مختلف شعبہ ہا ئے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ماورائے عدالت جبری اغوا جبری گمشدگی اور خفیہ ریاستی عقوبت خانوں میں اُنہیں سفاکانہ ذہنی جسمانی تشدد سے شہید کرنے اور پھر ان کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے والے واقعات کا تسلسل بلوچ نسل کشی واقعات کی شکل اختیار کر گیا ہے جو دنیا نے تمام ریاستی قوانین سمیت بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگی جرائم تسلیم کیے گے ہیں ان بلوچ کش واقعات پائی جانے والی شدت کا اندازہم گزشتہ سال میں لاپتہ بلوچوں ملنے والی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے جو وی بی ایم پی تنظیم کے مطابق ہزاروں سے زاہد ہے اس کے علاؤہ ساٹھ ہزار کے قریب بلوچوں کو جبری لاپتہ کیا گیا مگر حکومتی اداروں ان المناک اور سفاکانہ واقعات کی زمہ داری لینے سے انکاری ہیں –