آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچستان ضلع آواران تیرتیج سے جبری لاپتہ دلجان بلوچ کی لواحقین کا احتجاجی دھرنا آواران ڈی سی آفس سمیت بیدی، آواران گیس پلانٹ اور مشکے کراس پر دھرنا جاری ہے۔ مختلف مقامات پر جاری دھرنوں کی وجہ سے مسافر رل گئے ۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ کل رات نامعلوم افراد کی جانب سےہم پر گاڑی چلانے کی ناکام کوشش کی گئی ، ہم ایک بار پھر آواران ضلعی انتظامیہ کو یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر احتجاج میں موجود کسی کو کوئی نقصان پہنچایا گیا تو اس کی زمہ دار ضلعی انتظامیہ ہوگی۔
لواحقین کے مطابق مظاہرین کو ضلعی انتظامیہ و پولیس کی طرف سے سیکیورٹی نہیں دی جارہی ہے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کا زمہ دار آواران پولیس اور ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔
انھوں نےمزید کہا ہےکہ ضلعی انتظامیہ ڈی سی آواران نے آج تک دھرنا گاہ تک آنے کی نہ خود زحمت کی ہے نہ اپنے کسی زمہدار کو اپنی طرف سے بھیجا ہے۔ آج تک ڈپٹی کشنر آواران نے مظاہرین سے بات چیت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
لواحقین نے آخر میں کہا ہے کہ کیا ایک بلوچ خاتون ڈپٹی کمشنر کو سرد راتوں میں بیٹھی دوسری بلوچ خواتین کا زرا بھر بھی احساس نہیں جو گزشتہ چار راتوں سے کھلے آسان تلے سڑکوں پر رات گزارنے پر مجبور ہیں؟ ضلعی انتظامیہ خود کو کیسے بری الزمہ قرار دے سکتی ہے جبکہ ان کے اپنے اسسٹنٹ کمشنر نے باقاعدہ طور پر دستخط کرکے دیا ہے کہ دس دنوں میں دلجان بلوچ کو بازیاب کیا جائے گا۔