آواران، بلوچستان کا وہ گوشہ جسے دنیا شاید بھول چکی ہے، ایک بے آواز خطہ جہاں ظلم اور بربریت کی داستانیں خاموشی سے دفن ہو جاتی ہیں۔ اس خاموشی کو توڑنے والے چند لوگ جب اپنے پیاروں کی تلاش میں نکلتے ہیں، تو ان کے دل میں ایک چنگاری جلتی ہے، ایک امید کہ شاید ان کے گمشدہ عزیزوں کی واپسی ممکن ہو۔ لیکن اس چنگاری کو جلا بخشنے والا سورج بھی یہاں طلوع ہونے سے ڈرتا ہے، جیسے کہ وہ بھی اس خطے کے دکھ اور تکلیف کی گواہی دینے سے خوف زدہ ہو۔

یہاں نہ تو بازار ہے، نہ سڑکیں ہیں، جہاں لوگ احتجاج کرے نہ دکانیں ہیں جہاں کوئی پوسٹر بنائے ہا بینر تیار کرے نہ کوئی انٹرنٹ، نہ کوئی میڈیا جہاں کوئی اپنا آواز بنلد کرے۔ آواران ایک ایسا مقام ہے جہاں اندھیرا روشنی کو نگل لیتا ہے اور ہر گلی، ہر کونا، ہر پہاڑ خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ لیکن اس خاموشی میں ایک صدا ہے، ایک درد بھری پکار، جسے سننے والا شاید کوئی نہیں۔
دلجان، ایک اور نام، ایک اور انسان، ایک اور بلوچ، جو اس بربریت کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کی گمشدگی کا غم، اس کی ماں کے آنسو، اس کے بچوں کی بے چین نگاہیں، اس کے والد کی جھکی ہوئی کمر، یہ سب وہ تصویریں ہیں جو آواران کی ہر گلی، ہر کونے میں بکھری ہوئی ہیں۔ لیکن کیا یہ تصویریں کسی کی توجہ حاصل کر سکیں گی؟ کیا اس بربریت کا کوئی انجام ہوگا؟ شاید نہیں، شاید یہ ریاست اسی بزدلی کی چادر میں لپٹی رہے گی، شاید یہ اندھیرے کبھی ختم نہ ہوں۔
دلجان کی ماں، جس نے اپنے بیٹے کو اپنے گود میں پال پوس کر بڑا کیا، آج اس کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ اس کے آنسو، اس کی فریاد، اس کا درد، وہ ہر درخت، ہر پتھر سے ٹکراتی ہے، لیکن اس کے درد کا کوئی جواب نہیں۔ اس کی آواز ایک گہرے کنویں کی گونج کی طرح واپس آتی ہے، ایک بے آواز چیخ جو کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔
آواران کی فضا میں ہر سانس کے ساتھ ایک درد کی کہانی گھلی ہوئی ہے، ہر لمحہ ایک اذیت کی تصویر ہے۔ یہاں کے بچے، جن کی معصوم آنکھوں میں خوف اور مایوسی کی جھلک ہوتی ہے، وہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا مستقبل اندھیروں میں گم ہے۔ ان کی مسکراہٹیں، ان کے کھیل، ان کی ہنسی، سب کچھ اس جبر کی چادر تلے دب چکی ہیں۔
جبری گمشدگی ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا، جو ہر دن، ہر لمحہ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ بلوچستان کے لوگ، جنہوں نے اپنے پیاروں کو رات کی تاریکی میں کھو دیا، وہ دن کی روشنی میں ان کی تلاش میں نکلتے ہیں، لیکن یہ روشنی بھی انہیں مایوسی اور اندھیروں کی طرف لے جاتی ہے۔
بلوچستان میں رہنے والے لوگ شاید دنیا کی نظر میں کمزور ہوں، لیکن ان کے دل میں ایک آتش ہے، ایک شعلہ جو اس جبر کے خلاف جلتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر آج انہوں نے آواز نہ اٹھائی، اگر آج انہوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج نہ کیا، تو کل یہ آتش خود ان کے دلوں کو جلا دے گی۔
آج دلجان کی گمشدگی کا غم پورے بلوچستان کا غم ہے۔ اس کی بازیابی کی جنگ میں، وہ لوگ جو اپنی آنکھوں میں آنسو چھپا کر نکلتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ صرف دلجان کے لیے نہیں ہے، یہ جنگ ہر اس بلوچ کے لیے ہے جو اس بزدل ریاست کے جبر کا شکار ہوا ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہیں، اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو کل شاید ہم خود اس اندھیرے کا حصہ بن جائیں گے۔دلجان کے لواحقین کو مدد کی ضرورت ہے، انہیں حوصلہ چاہیے، انہیں وہ لوگ چاہیے جو ان کے ساتھ کھڑے ہوں، جو ان کے درد کو سمجھیں۔آواران میں تنظیم جسے کہ سول سوسائٹی کے کارکن، بی ایس او
اور بی ایس ایف کے نمائندے، اور دوسرے تنظیم جس کا مقصد عوام کو ازیت اور تکلیف سے بچانا ہے انہیں دلجان کی بازیابی کے لیے میدان میں اترنا ہوگا۔ یہ جنگ ایک فرد کی بازیابی کی نہیں، یہ جنگ اس پوری قوم کی شناخت کی ہے، اس کی بقا کی ہے۔
اگر آج ہم دلجان کے لواحقین کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، اگر آج ہم نے ان کے درد کو محسوس نہ کیا، تو کل شاید ہم بھی اسی درد کا شکار ہوں۔ یہ یاد رکھنا کہ آج دلجان کی گمشدگی کل ہماری گمشدگی بن سکتی ہے۔ آج کے آنسو، کل کی چیخیں، آج کی خاموشی، کل کا شور بن سکتی ہے۔
بلوچستان کی یہ زمین، جس نے نہ جانے کتنے دلجانو ں کو اپنے اندر چھپا رکھا ہے، آج چیخ چیخ کر ہمیں پکار رہی ہے۔ آج اس کے ہر ذرّے میں ایک داستان دفن ہے، ایک ایسا راز جو ہمیں آواز اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمیں اس زمین کے ساتھ وفا کرنی ہوگی، ہمیں اس کی آواز بننا ہوگا، ہمیں ان بے گناہوں کے لیے کھڑا ہونا ہوگا جو اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اس بربریت کے خلاف ایک متحد آواز بنیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس ظلم کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کے لیے کھڑے ہوں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس جبر کی چادر کو پھاڑ کر ایک نئی صبح کا آغاز کریں۔ کیونکہ آج دلجان کی ماں، اس کی بہن، اس کے بھائی، سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں ایک امید ہے کہ شاید ہم ان کے لیے کچھ کر سکیں۔
ہمیں ان کی اس امید کو ٹوٹنے نہیں دینا، ہمیں ان کے آنسوؤں کو ضائع نہیں جانے دینا۔ ہمیں اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا، کیونکہ یہ صرف دلجان کی بازیابی کی جنگ نہیں ہے، یہ ایک قوم کی بقا کی جنگ ہے، ایک قوم کی شناخت کی جنگ ہے۔ آج اگر ہم نے قدم نہ اٹھایا، تو شاید کل ہمیں بھی کوئی اس اندھیری وادی میں تلاش کرتا ہوا نظر آئے۔یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس بربریت کے خلاف ایک دیوار بنیں، ایک مضبوط آواز بنیں، ایک ایسی قوت بنیں جو اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے کافی ہو۔ کیونکہ یہ جنگ صرف آج کی نہیں، یہ جنگ آنے والی نسلوں کے لیے ہے، یہ جنگ ان بچوں کے لیے ہے جو اس ظلم کے سائے میں بڑے ہو رہے ہیں، یہ جنگ ان کے مستقبل کے لیے ہے۔
ہمیں اس اندھیرے کو روشنی میں بدلنا ہوگا، ہمیں اس جبر کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں اس زمین کو اس کے اصل رنگ واپس دینا ہوگا۔ آج کا دن، ایک نئے سفر کا آغاز ہے، ایک نئی امید کا جنم ہے، ایک نئی روشنی کی تلاش ہے۔ ہمیں اس سفر میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا، ہمیں اس سفر کو انجام تک پہنچانا ہوگا، کیونکہ یہ جنگ ہماری ہے، یہ زمین ہماری ہے، یہ شناخت ہماری ہے۔