آواران، بلوچستان کا ایک پسماندہ اور پس پردہ ضلع ہے، جو ریاستی جبر، عدم استحکام اور انفارمیشن تک رسائی کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی، اور اپنے معاملات پر خود مختاری سے محروم کیا گیا ہے۔ ان کے مسائل کو سُننے والا کوئی نہیں اور ان کی آواز کو باہر دنیا تک پہنچانے کے ذرائع نہایت محدود ہیں۔ میڈیا کی غیر موجودگی نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
میڈیا کو معاشرتی عدلیہ کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، جو سماج میں توازن اور انصاف کی علامت ہوتی ہے۔ مگر آواران میں میڈیا کی غیر موجودگی نے مسائل کے حل کو ممکن بننے کی بجائے ناممکنات میں بدل دیا ہے۔ وہاں کے مسائل، شکایات اور ضروریات کو کسی بڑے فورم پر پیش کرنا ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ یہ عدمِ رسائی ریاستی جبر کا منہ بولتا ثبوت ہے، جہاں معلومات کا بہاؤ جان بوجھ کر روکا گیا ہے۔
آواران میں میڈیا نہ ہونے کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا ہے کہ وہاں پر ہونے والے ظلم و ستم کی خبر ملک کے دیگر حصوں میں نہیں پہنچ پاتی۔ ریاستی ادارے اور سیکیورٹی فورسز اکثر ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے عوام خوف و ہراس کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی روشن مثالیں ہیں، مگر میڈیا کی غیر موجودگی میں ان واقعات کو دستاویزی شکل دینا، یا ان کے متعلق کسی قسم کی آگاہی دینا ممکن نہیں ہوتا۔
میڈیا کے بغیر معلومات کا خال آواران میں ریاستی جبر کی صورت میں اپنا وجود رکھتا ہے۔ وہاں پر ہونے والے فوجی آپریشنز، سرچ آپریشنز اور دیگر سخت کاروائیاں اکثر خوف و ہراس کا باعث بنتی ہیں۔ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے، مکانات جلا دیے جاتے ہیں، اور کسی قسم کی مزاحمت پر انہیں قید یا تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ان مظالم کی داستانیں دنیا کے سامنے نہیں آتیں، کیونکہ میڈیا کی آواز وہاں تک نہیں پہنچتی۔
آواران کے دشوار گزار علاقوں میں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات ناپید ہیں، وہاں مواصلات کی عدم دستیابی نے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ مشکے، جاھو اور گیشکور جیسے علاقوں میں یوفون کے نیٹ ورک بھی موجود نہیں، ان باسیوں کو ملک کے مرکزی دھارے سے یکسر منقطع کر دیتی ہے۔ ان دورافتادہ خطوں میں رہنے والے لوگوں کو ریاستی عدم توجہی اور بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی کے سبب شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کی عدم دستیابی نے لوگوں کی زندگیوں کو نہایت پیچیدہ اور کٹھن بنا دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں، تعلیم، صحت، روزگار اور رابطے کے مواقع میں شدید رکاوٹیں درپیش ہیں۔ بنیادی مواصلاتی ذرائع کے بغیر، ان مقامات کے لوگ جدید دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ یہ صورتحال ریاست کی جانب سے ترقیاتی عدم توجہی کی علامت ہے، جو ان دوردراز علاقوں کے مکینوں کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
علاقے میں جاری سیاسی اور عسکری استحصال کے تحت ریاستی ادارے وہاں کے لوگوں پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، اور کسی بھی قسم کی بغاوت کو کچلنے کے لیے طاقت کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا کی غیر موجودگی نے وہاں پر جاری ریاستی ظلم کو مزید طاقتور بنا دیا ہے، کیونکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں۔
آواران کے لوگوں کو روزگار، تعلیم، اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم کیا گیا ہے، اور اس محرومی کا چرچا بھی کرنے والا کوئی نہیں۔ میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جو مظلوم اور محروم افراد کی آواز بن سکتا ہے، مگر آواران میں اس کی عدم موجودگی نے وہاں کے باسیوں کو مظلومیت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں غیر یقینی کی صورتحال ہے، جہاں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے، یا کسی صورت پیش نہیں کیا جاتا۔ ریاستی ادارے وہاں کے عوام کو سیاسی خود مختاری سے بھی محروم رکھتے ہیں، جس کے باعث وہاں کے لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔
آواران میں میڈیا کی عدم موجودگی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہاں کے لوگوں کو اپنے مسائل اور محرومیوں کو کسی بڑے پلیٹ فارم پر پیش کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ یہ صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ ریاستی جبر نے آزادی اظہار رائے کے حق کو مکمل طور پر دبا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، آواران کے عوام کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ میڈیا کی غیر موجودگی نے آواران کو مکمل طور پر ایک بند حصار میں قید کر دیا ہے، جہاں ظلم اور بربریت کی داستانیں پردے کے پیچھے دبی ہوئی ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اس علاقے میں میڈیا کے قیام کی اجازت دے، تاکہ وہاں کے لوگوں کی آواز کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔ میڈیا کو وہاں کے لوگوں کے مسائل، مشکلات، اور محرومیوں کو اجاگر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔