بلوچ طلبہ کی علمی ترقی میں مختلف رکاوٹیں، ان کے خوابوں کی راہ میں حائل ہو کر، انہیں ذہنی اذیت اور مایوسی میں مبتلا کر رہی ہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے، جہاں تعلیمی مواقع کی کمی پہلے ہی ایک سنگین مسئلہ ہے، وہاں پر ان طلبہ کو مزید امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طالبعلم جو اپنی تعلیمی صلاحیت کو ثابت کرنے کے لیے برسوں کی محنت اور مشقت سے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے قریب پہنچتا ہے، جب اس کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے اور اس کی محنت کو ضائع کر دیا جاتا ہے، تو یہ عمل اس کے دل میں گہری مایوسی پیدا کر دیتا ہے۔
22 ستمبر 2024 کو منعقدہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں، سندھ میں پیپر لیک ہونے کے باعث دوبارہ امتحان کا حکم دیا گیا۔ ضلع آواران سے تعلق رکھنے والے امیدوار حنان حسن ولد محمد حسن نے مبینہ طور پر اپنے بھائی کو اپنی جگہ امتحان میں بٹھا کر 162 اسکور حاصل کیا، جو کہ امتحانی نظام کی ساکھ پر سوالات اٹھاتا ہے۔ اس فعل سے نہ صرف آواران کے محروم طلبہ کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ پورے ملک میں تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسی دھوکہ دہی تعلیم کے معیار کو نقصان پہنچاتی ہے اور اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچ طلبہ کا تعلیم حاصل کرنے کا عزم اور اس میں درپیش مشکلات ایک اہم مسئلہ ہے۔ بلوچستان کے دیہی اور نیم شہری علاقوں، جیسے آواران، میں تعلیمی اداروں کی کمی، انفراسٹرکچر کی ناکافی حالت اور تدریسی وسائل کی عدم دستیابی نے پہلے ہی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کو محدود کر رکھا ہے۔ لیکن مسئلہ اس وقت سنگین ہو جاتا ہے جب ان طلبہ کو ان کے مستحق تعلیمی مواقع سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں، بلکہ پورے بلوچستان میں موجود تعلیمی اداروں میں یہ عدم توازن دیکھنے میں آتا ہے۔
جب طلبہ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے اپنی تمام تر محنت اور کوششوں کے بعد میرٹ لسٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ان کی زندگی کا ایک بڑا سنگ میل ہوتا ہے۔ لیکن جب ان کی سیٹیں غیر قانونی طریقوں سے چھین لی جاتی ہیں تو یہ نہ صرف ان کی محنت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے بلکہ ان کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ آواران جیسے علاقوں کے طلبہ جو پہلے ہی معاشرتی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے لیے ان کے حقوق کی پامالی ان کی تعلیمی زندگی کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔
بلوچ طلبہ کو ذہنی اذیت دینے کے مختلف طریقے ان کی زندگیوں میں مزید مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو کسی بھی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، لیکن بلوچستان میں تعلیم حاصل کرنا بذات خود ایک چیلنج بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات انہیں کم مراعات دی جاتی ہیں اور بعض اوقات انہیں تعلیمی سرگرمیوں سے دانستہ طور پر باہر رکھا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی علمی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی کو بھی مجروح کرتا ہے۔
بلوچستان کے تعلیمی ادارے جو اپنے طلبہ کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، ان میں حکومتی مداخلت کی اشد ضرورت ہے۔ ایک جامع نظام وضع کیا جانا چاہیے جو تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنائے اور ہر طالبعلم کو اس کے حق کے مطابق داخلہ مل سکے۔ یہ ضروری ہے کہ میرٹ لسٹ کی ترتیب میں مکمل شفافیت اور ایمانداری کو برقرار رکھا جائے اور کسی بھی غیر قانونی مداخلت کو سختی سے روکا جائے۔ آواران کے غریب طالبعلموں کو ان کا حق دینا نہ صرف ان کی محنت کا اعتراف ہے بلکہ اس سے پورے معاشرے کو ترقی کا راستہ بھی ملتا ہے۔
بلوچ طلبہ کے تعلیمی حقوق کی خلاف ورزی، ان کی سالہا سال کی محنت کو ضائع کرنا، اور انہیں تعلیم کی راہ میں ذہنی اذیت دینا، ایک ایسا غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ عمل ہے جو کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں مساوی مواقع کی فراہمی یقینی بنائے اور بلوچ طلبہ کو ان کی تعلیمی جدوجہد میں معاونت فراہم کرے۔ بلوچستان کے طلبہ کے لیے تعلیمی سہولیات میں بہتری اور میرٹ کی بنیاد پر داخلوں کی فراہمی کے ذریعے ہی ان کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں شفافیت، انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے عمل کو یقینی بنائے تاکہ غریب اور محنتی طلبہ کے حقوق کا تحفظ ہو۔ بلوچ طلبہ کو تعلیمی میدان میں درپیش مشکلات کو نظر انداز کرنے کا عمل ان کی ترقی کو روکنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام کی اصلاحات اور میرٹ کی بحالی کے ذریعے ہی معاشرتی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔