آواران، بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جہاں کے باشندے اپنے حقوق کی جدوجہد میں ہمیشہ سے کٹھن حالات کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ وہاں کے عوام کی زندگیوں میں استحصال اور بے حسی کی کہانیاں یوں بکھری ہوئی ہیں جیسے یہ مظالم ان کے مقدر کا حصہ ہوں۔ آواران میں انتظامی نااہلی اور ریاستی اداروں کی مجرمانہ غفلت نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں عوام اپنی بنیادی ضروریات اور حقوق سے محروم ہیں۔ پسماندگی اور فراموش شدگی کی اس فضا میں زندگی گزارنے والے عوام کے پاس اپنی آواز بلند کرنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اس خطے کے عوام کو ہمیشہ سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ آواران کے لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف کے حصول میں ناقابل بیان رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا استحصال محض حکومت کی ناکامی کا شاخسانہ نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ جہاں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایک بہتر اور محفوظ ماحول فراہم کرے، وہیں آواران میں اس ذمہ داری سے منہ موڑنے کی روش برقرار ہے۔ ریاستی ادارے اور انتظامیہ نہ صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھاتے بلکہ عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش میں بھی مصروف ہیں۔
آواران میں عوامی حقوق کی پامالی کا سب سے زیادہ اثر وہاں کے نوجوانوں پر پڑا ہے۔ تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی نے وہاں کے نوجوانوں کو علم کی روشنی سے محروم رکھا ہے۔ تعلیم کی اہمیت اور علم کے حصول کی ضرورت سے ہر کوئی واقف ہے، مگر آواران کے باسیوں کو یہ موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ وہاں کے نوجوان اپنے خوابوں کی تعبیر اور ایک بہتر مستقبل کے حصول کے لئے کسی سہارا کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی کمیابی نے نوجوانوں کو پسماندگی کی جانب دھکیل دیا ہے اور انہیں معاشرتی ترقی کے دھارے سے الگ کر دیا ہے۔
صحت کے میدان میں بھی آواران کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی نے وہاں کے عوام کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ آواران میں صحت کے مراکز کی کمی اور دستیاب طبی وسائل کا فقدان انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔ بیماریوں کا علاج میسر نہ ہونا اور طبی امداد کی عدم موجودگی عوام کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ریاستی ادارے عوام کی زندگیوں کو نظرانداز کر رہے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے بارے میں مکمل طور پر غافل نظر آتے ہیں۔ یہ بے حسی عوام کے لئے ناقابل برداشت ہے اور ان کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
آواران کے عوام کو روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی نے بھی شدید متاثر کیا ہے۔ بے روزگاری اور غربت نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ روزگار کے وسائل کی کمیابی اور معاشی مواقع کا فقدان وہاں کے عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بے روزگاری کے باعث وہاں کے لوگ معاشرتی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں اور ایک بہتر زندگی کی خواہش ان کے لئے خواب بن گئی ہے۔ ریاستی اداروں کی نااہلی اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت نے عوام کو بے سہارا اور بے دست و پا کر دیا ہے۔
آواران کے عوام کو جبری گمشدگی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ ان کے پیارے بغیر کسی اطلاع کے غائب کر دیے جاتے ہیں اور ان کی واپسی کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ جبری گمشدگی کا مسئلہ نہ صرف آواران بلکہ پورے بلوچستان کے عوام کے لئے ایک دردناک حقیقت بن چکا ہے۔ اس غیر انسانی عمل نے عوام کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے اور ان کے دلوں میں بے بسی کا احساس مزید بڑھا دیا ہے۔ جبری گمشدگی کے واقعات نے آواران کے عوام کی زندگیوں کو تاریکی میں دھکیل دیا ہے اور ان کے حقوق کی پامالی کی ایک اور مثال قائم کی ہے۔
ان تمام مسائل کا مشترکہ نتیجہ آواران کے عوام کے لئے ایک مایوسی اور بے بسی کا احساس ہے۔ وہاں کے لوگ اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے کسی بھی طرح کے ریاستی تعاون سے محروم ہیں۔ ریاستی ادارے اور نام نہاد سیاستدان ان کے لئے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں مگر عملی اقدامات سے عاری رہتے ہیں۔ عوامی حقوق کی پامالی اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت نے آواران کے عوام کو اپنے حقوق کے لئے خود جدوجہد کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
آواران کے عوام کو چاہئے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں اور اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہوں۔ ان کے حقوق کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے اور اس کے لئے انہیں اپنے اندر اتحاد اور ہمت پیدا کرنی ہوگی۔ ان کے مسائل کا حل انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر انہیں اپنے حقوق کے لئے خود بھی بیدار رہنا ہوگا۔ آواران کے عوام کی بیداری اور ان کی اجتماعی جدوجہد ہی ان کے مسائل کے حل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔