پاکستانی فوج، پیراملٹری فورس ایف سی، اینٹی ٹیررزم فورس {اے ٹی ایف} اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے بلوچ فرزندوں کو ان کے گھروں، کام کی جگہ، پبلک ٹرانسپورٹ، یونیورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں، اسپتالوں سمیت کہیں سے بھی اٹھا کر خفیہ فوجی اور انٹیلی جنس عقوبت خانوں میں غیرمعینہ مدت تک لاپتہ رکھ کرازیتیں دینے کی غیر انسانی اورغیر قانونی کاروائیوں کا آغاز جنوری 2000ء میں بزرگ بلوچ رہنما مرحوم سردار خیر بخش مری کی جسٹس نواز مری قتل کیس میں گرفتاری کے ساتھ ہی شروع ہوا جب فورسز نے سردار صاحب کے ساتھیوں، قبیلہ کے افراد اور پیروکاروں کی گرفتاریاں شروع کیں۔ یاد رہے جب اے ٹی ایف اپنے دہشتگردانہ کردار کے باعث زیادہ بدنام ہوئی تو کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیا مگر حکومت نے وردی میں ملبوس اس دہشتگرد فورس کا محض نام بدل کر سی ٹی ڈی پولیس کے نام سے اس ڈیتھ اسکواڈ کو جاری رکھا۔ دو دہائیوں کے بعد اب بھی جبری اٹھاکر لاپتہ رکھنے کی انسانیت سوز کاروائیاں شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے آغاز میں گرفتارافراد کوتفتیش کیلئے پولیس تھانوں میں رکھنے اورعدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے فوج، انٹیلی جنس اور فرنٹیئر کور کے خفیہ عقوبت خانوں میں کئی کئی مہینے رکھ کر ان پر بدترین نوعیت کا تشدد کیا جانے لگا۔ جن افراد کے اہلخانہ ان کی بازیابی کیلئے عدالتوں میں درخواست دیتے تو فوج، ایف سی، انٹیلی جنس اور پولیس کے نمائندے عدالت کے روبرو گرفتار شخص کی زیر حراست ہونے سے انکار کرتے۔ انکار کی یہ پالیسی اسی طرح اب بھی جاری ہے۔ اسلام کا نام سب سے زیادہ استعمال کرنے والی ریاست پاکستان کی فوج ، پولیس اور انٹیلی جنس کے نمائندے زیرحراست شخص کی گرفتاری سے متعلق اپنے انکاری بیان کی تائید میں عدالتوں کے روبرو جھوٹا حلف نامہ پیش کرنے سے تھوڑا بھی نہیں ہچکاتے اور نہ حکومت، پارلیمان و میڈیا کے سامنے جبری گمشدگیوں سے انکار کرتے وقت فوج اور حکومتی ترجمان، سرفراز بگٹی، انوارالحق کاکڑ اور جان اچکزئی جیسے ان کے بے ضمیر ٹائوٹ تھوڑی سی گناہ یا شرم محسوس کرتے ہیں۔
جبری گمشدگیوں کے اس غیر قانونی اور غیر انسانی پالیسی پر پاکستان سپریم کورٹ کی اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر افتخار محمد چوہدری نے فوج اور خفیہ اداروں کو قانونی حدود و قیود کا پابند اور جوابدہ بنانے کی کوشش کی تو ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرکے ججز کو گرفتار کیا اور پاکستان کی بے وقعت آئین کو ایک بار پھر معطل کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ فوج نےعارضی آئینی حکم نامہ جاری کرکے اسی کے تحت نئی عدلیہ تشکیل دی۔ جسٹس افتخار چوہدری اور نئے عارضی آئینی حکمنامہ کے تحت حلف سے انکاری اعلیٰ عدلیہ کے ایسے تمام ججز کو ان کے اہلخانہ کے ہمراہ گھروں میں قید کردیا گیا جن کی رہائی بعد میں وزیراعظم بننے والے یوسف رضا گیلانی کے ایک ایگزیکٹو حکمنامہ سے عمل میں آئی۔
ریاستی جبر اور بلوچ نسل کشی کی اس لہر کے خلاف بلوچ آزادی خواہ قوتیں بھی ایک بار پھرتیزی سے مسلح محاذ پر اپنی کاروائیاں شروع کرکے سرگرم ہوگئے۔ قابض پاکستانی فوج کے ساتھ سرمچاروں کا مسلح تصادم کوہلو، کاہان اور ڈیرہ بگٹی جیسے مضبوط سرداری علاقوں سے نکل کر پورے بلوچستان میں پھیلتا گیا۔ ریاست کی توقعات اور اندازوں کے برعکس آزادی کی مسلح تحریک مکران، آواران اور دیگر غیر سرداری علاقوں میں زیادہ منظم و موثر شکل میں سامنے آیا اور اب بھی اسی خاصیت کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کو جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ سیاسی اور عوامی حمایت کی ضرورت تھی اسلئے امریکہ اور نیٹو ممالک کے دبائو پر جنرل پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کے ساتھ سودابازی کرکے این آر او جاری کردیا جس کے تحت بینظیر بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کی رہنمائوں کے خلاف سچے اور جھوٹے سب مقدمات ختم کیئے گئے مگر اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کو بینظیر کی بھاری بھرکم شخصیت کے سامنے اپنے بونے نظر آنے کا احساس تھا اس لئے جرنیلوں نے بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کیلئے اسے قتل کروایا اور پاکستان پیلز پارٹی کو چھوٹے شریکدار کی حیثیت سے شریک اقتدار بنایا۔
گوکہ کچھ عرصہ بعد پی پی پی نے جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے دھکے دے کر نکال تو دیا مگر مقبوضہ بلوچستان میں فوج کی بلوچ نسل کش پالیسیوں میں کوئی مداخلت نہ کی بلکہ فوج کو بلوچ نسل کش پالیسیاں اور کاروائیاں جاری رکھنے میں پوری طرح سے مدد کرتی رہی۔
2009 میں، جب پی پی پی شریک اقتدار تھا، فوج نے بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنز میں جبر کے نت نئے ہتھکنڈوں کا اضافہ کیا۔ ان نئے ہتھکنڈوں میں جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کو زیر حراست قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی پالیسی، جو "مارو اور پھینک دو” کے نام سے مشہور ہوئی، سرفہرست ہے۔ ریاستی جبر اور دہشتگردی کا ایک اور ہتھکنڈہ جو اسی دور میں متعارف کیا گیا وہ ہے بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف فوج اور انٹیلی جنس کی سرپرستی میں نجی مسلح جتھوں کی تشکیل۔ ان مسلح جتھوں کو بلوچ سرمچاروں کے خلاف مسلح کاروائیوں میں فوج و سکیورٹی فورسز کی مدد کیلئے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے محب وطن بلوچ شخصیات، ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی پائمالیوں بارے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی کاروائیاں بھی شامل ہیں ۔ بلوچ سماج میں ریاستی پرستی میں بننے والی ان مسلح جتھوں کو ڈیتھ اسکواڈ کہا جاتا ہے جبکہ جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کی ریاستی پالیسی کو بلوچ نسل کشی قرار دیا جاتا ہے۔
بلوچ نسل کشی کی اس ریاستی پالیسی نے مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی ایک مقامی تحریک کو جنم دیا۔ جبری لاپتہ کیئے گئے بلوچوں کے رشتہ داروں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز [وی بی ایم پی] کے نام سے ایک تنظیم بنایا جس نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہروں اور علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ بعض اوقات سردیوں میں وی بی ایم پی اپنا یہ کیمپ کراچی پریس کلب کے سامنے بھی منتقل کرتا رہا ہے۔ یہ احتجاجی کیمپ دو دہائیاں گزرنے کے باوجود اب بھی اسی طرح قائم ہے مگر بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کے مسئلہ پر جسٹس افتخارمحمد چوہدری اور اس کی عدلیہ کے ساتھ فوج نے جو سلوک کیا تھا اس کے بعد پاکستان کی عدلیہ، فوج کے آلہ کار سیاسی و مذہبی جماعتوں، ربڑ اسٹمپ پارلیمنٹ، کھٹ پتلی سویلین حکومتوں اور میڈیا کو کبھی جرات نہ ہوئِی کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم پر فوج، خفیہ اداروں اور ان کی سرپرستی میں سرگرم ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف آواز اٹھائیں۔
فوج اور خفیہ اداروں نے ربڑ اسٹمپ پارلیمنٹ، کھٹ پتلی حکومتوں، ابن الوقت شریک اقتدار سیاسی جماعتوں اور کینگرو کورٹس کی سہولتکاری اور متعصب کاروباری میڈیا کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچ قوم کی اجتماعی آواز کو دبانے کیلئے جمہوری محاذ پر سرگرم آزادی خواہ بلوچ سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کرکے ان کی قیادت، کیڈرز اور سرگرم کارکنوں کو چن چن کر قتل و لاپتہ کرنا شروع کیا۔ بلوچ نیشنل موومنٹ، بی آر پی اور بی ایس او آزاد کے سینکڑوں رہنمائوں، کیڈرز اور ہزاروں کارکنوں و ہمدردوں کو شہید اور جبری لاپتہ کرکے ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی۔ ریاستی دہشتگردی کے اس تاریک دور میں صرف وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ تمام تر ریاستی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود نہ صرف قائم رہا بلکہ 2014 میں وی بی ایم پی نے کوئٹہ سے کراچی، پھر کراچی سے اسلام آباد تک جبری گمشدگیوں اور "مارو اور پھینک دو” جیسے بلوچ نسل کش پالیسیوں کے خلاف طویل ترین پیدل لانگ مارچ بھی کیا۔
ایک طرف سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کی فوج اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ سہولتکاری کی پالیسی نے بلوچ سماج میں ریاست اور اس کے اداروں سے انصاف کی امید کو ختم کیا تو دوسری طرف مقبوضہ بلوچستان کی جغرافیہ، سکیورٹی اداروں اور ان کے لے پالک ڈیتھ اسکواڈز کی کھلی دہشتگردی، دھونس اور دھمکیوں کے سبب جبری لاپتہ افراد کے خاندانوں کی عدلیہ اور میڈیا تک رسائی بھی ممکن نہیں رہا جس کے نتیجہ میں 90 فیصد لوگوں نے سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں اپنے پیاروں کے اغواء اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف انصاف کیلئے عدالتوں اور میڈیا کا رُخ ہی نہیں کیا اور یہ صورتحال آج بھی جاری ہے۔ مقبوضہ بلوچستان میں جمہوری آزادی خواہ قوتوں کے خلاف طاقت کے استعمال اور ان کی سرگرمیوں پر قدغن کے باعث کچھ عرصہ کیلئے بلوچستان میں قومی جدوجہد کے جمہوری محاذ پر بظاہر خاموشی کا راج رہا مگر بلوچ سماج میں اندر ہی اندر غم و غصہ کا ایک لاوا پکتا رہا۔ 26 مئی 2020 کی رات کیچ میں ڈیتھ اسکواڈ کارندوں کے ہاتھوں محترمہ ملک ناز بلوچ کی شہادت اور معصوم برمش بلوچ کی زخمی ہونے کے واقعہ کے رد عمل میں غم و غصہ کا یہ لاوا پھٹ پڑا۔ مکران سے ڈیرہ غازی خان، دالبندین اور شال سے سراوان، جہلاوان، لسبیلہ، کوہلو، کچھی اور ڈیرہ بگٹی تک بلوچ عوام نے ریاست اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی اس دہشتگردی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ کیچ ہی میں 13 اگست 2020 کو دن دھاڑے قابض پاکستانی فوج کے ہاتھوں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کی اس کے والدین کے سامنے بہیمانہ قتل نے بلوچ قوم کے غم و غصہ کو نہ صرف مزید بھڑکا دیا بلکہ بلوچ قوم کے اندر یکجہتی کو نئی مہمیز دی۔ بلوچ سیاسی و طلباء تنظیموں پر پابندیوں کے باعث جمہوری محاذ پر جو خلاء تھا بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام سے انسانی حقوق کی ایک نئی تحریک نے جنم لے کر اس خلاء کو پُر کرنا شروع کردیا۔
پی پی پی، مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں کو فوج جب اقتدار سے نکالتی ہے تو یہ اپنے سیاسی مفاد میں سودابازی اور فوج پر دبائو ڈالنے کیلئے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں سمیت فوج کے دیگر بلوچ نسل کش پالیسیوں پر تھوڑا بہت تنقید کرتے ہیں لیکن جیسے ہی فوج ان کو شریک اقتدار بناتا ہے تو وہ پھر سے فوج کی بلوچ نسل کش پالیسی کی حمایت اور دفاع کرنے میں جُت جاتے ہیں، فوج کے اقدامت کو جائز قرار دینے کیلئے ربڑ اسٹمپ پارلیمان سے کالے قوانین اور قرار دادیں منظور کرواتے ہیں۔ اقتدار کے کھیل میں پاکستانی فوج اور موروثی سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی، الزام تراشی اور سودا بازیوں سے قطع نظر بلوچ نسل کشی کی فوجی پالیسی پر پاکستان کی یہ تمام ابن الوقت سیاسی و مذہبی گروہ اور عدلیہ، پارلیمان و میڈیا جیسے ریاستی ستون فوج کی امامت میں ہی ہمیشہ صف بند نظر آتے ہیں۔ فوج نے عدلیہ، مقننہ، حکومت اور میڈیا کو ڈنڈے کے زور پر اپنی مٹھی میں بند کر لیا ہے اور مذکورہ اداروں کی ملی بھگت سے نہ صرف بلوچ قوم کی نسل کشی جاری رکھا ہوا ہے بلکہ روز بہ روز اس میں تیزی بھی لا رہا ہے۔
سال 2023 اپنے اختتام کے قریب ایک بار پھر بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک بڑی قومی احتجاج اور بیداری کو جنم دے کر گیا۔ بلوچ نسل کشی کے خلاف احتجاج کی یہ طوفان بھی کیچ ہی سے اُٹھی اور بڑی سرعت کے ساتھ پھیل گیا۔ اس تحریک کی چنگاری کائونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ {سی ٹی ڈی} پولیس کے ہاتھوں کیچ میں ایک جعلی مقابلے میں چار بلوچ نوجوانوں کی ماورائے عدالت قتل کے ردعمل میں بھڑک اُٹھا۔ ہوا یہ کہ 23 نومبر 2023 کی علی الصبح سی ٹی ڈی پولیس تربت نے چار بلوچ نوجوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشوں کو تربت اسپتال میں لاکر دعویٰ کیا کہ نوجوان سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے ہیں۔ مقتول نوجوانوں میں سے سب سے پہلے ایک کی شناخت تربت کے رہائشی 23 سالہ بالاچ ولد مولا بخش کے نام سے ہوا جسے سی ٹی ڈی پولیس نے 29 اکتوبر 2023 کو آبسر تربت میں اس کے گھر پر ایک چھاپہ کے دوران حراست میں لے کر 23 دن تک لاپتہ رکھنے کے بعد 21 نومبر 2023 کو عدالت میں پیش کرکے اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔ بالاچ ولد مولا بخش کے ساتھ اس دن جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے دوسرے نوجوانوں کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ عبدالودود ولد مبارک، سیف اللہ ولد اومیت علی اور شکور ولد نور جان کے ناموں سے ہوئی۔ سیف اللہ کو فورسز نے یکم اگست 2023 کو آبسر تربت میں ان کے دکان سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا تھا۔ شکور ولد نور جان کو فورسز نے 25 جون 2023 کو تمپ کے علاقہ پُھل آباد کسانو میں واقع اس کے گھر سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہوا تھا جبکہ عبدالودود بلوچ 27 اپریل 2023 کو فوج کی جانب سے طلب کرنے پر تربت میں واقع ملٹری کیمپ جاکر پیش ہوا تھا اور تب سے لاپتہ تھا۔ ایک ہی ہفتہ کے اندر کیچ میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے 19 نومبر 2023 کو تحصیل ہوشاب کے علاقہ بالگتر میں سی ٹی ڈی پولیس نے پہلے سے جبری لاپتہ تین بلوچ فرزندوں کو ایک گاڑی کے اندر ڈالنے کے بعد اس میں بم رکھ کر ریموٹ کنٹرول سے گاڑی میں دھماکہ کرکے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ مقتولین دہشتگرد تھے جو گاڑی میں موجود بم کے پھٹنے سے جان بحق ہوگئے ہیں مگر مقتول افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کرکے ثبوت کے ساتھ سامنے آکر بتائے کہ مقتولین میں سے عادل عصاء اور نبی بخش کو فورسز نے 22 اگست 2023 کو تربت شہر سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا تھا اور دھماکہ میں استعمال ہونے والی گاڑی کو بھی چند دن قبل سکیورٹی فورسز نے ایک شہری سے چھینے تھے۔
23 نومبر کے جعلی مقابلے میں قتل بالاچ ولد مولا بخش کی شناخت ہوتے ہی اس کا اہلخانہ اور سول سوسائٹی کے ارکان نے لاش کو لے کر فدا شہید چوک پر احتجاجاً دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ احتجاجیوں نے لاش کو جلوس کی شکل میں کورٹ بھی لے کرگئے، پھر لاش کے ہمراہ دوبارہ فدا شہید چوک پر احتجاجی دھرنا شروع کیا۔ احتجاج میں مقتول بالاچ کی فیملی کے ساتھ تربت سول سوسائٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ بھی شامل ہوگئے جس کے باعث نہ صرف تربت میں عوام کی بڑی تعداد دھرنے میں شامل ہوتے گئے بلکہ مکران سمیت پورے بلوچستان میں عوام نے بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک بار پھر بڑی تحریک شروع کی۔ جعلی مقابلوں میں قتل کے یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات نے جبری لاپتہ افراد کی خاندانوں کے ساتھ ساتھ پورے بلوچ قوم میں غم، غصہ اور تشویش کی ایک لہر پیدا کیا۔ کھٹ پتلی حکومت اور اس کے دلال اس احتجاجی تحریک کو ختم کرانے کیلئے دھونس، دھمکی، دھوکہ بازی اور لالچ کے تمام حربے استعمال کرنا شروع کیا۔ شہید بالاچ کے خاندان کو چار کروڑ روپے بطور دیت دینے کی پیشکش کرکے خریدنے کی کوشش کی گئی۔ دوسری طرف کھٹ پتلی وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور مقبوضہ بلوچستان انتظامیہ کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ذریعے شہید بالاچ سمیت دیگر شہداء اور جبری لاپتہ فرزندوں پر دہشتگردی کے الزامات لگانے کا پروپیگنڈہ مہم تیز کیا گیا مگر ریاست اور اس کے دلالوں کی سب سازشیں بلوچ قومی شعور کے آگے خاک ہوتی گئیں۔ شہید بالاچ کے وکلاء نے سی ٹی ڈی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کیلئے سیشن عدالت میں پٹیشن داخل کیا جس پر عدالت نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا مگر کھٹ پتلی حکومت اور پولیس میں اتنی ہمت کہاں جو وردی میں ملبوس ڈیتھ اسکواڈ سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمہ درج کرکے فوج اور خفیہ اداروں کے اس سویلین چہرہ کے اہلکاروں کو کٹہرہ میں لا سکیں۔ کھٹ پتلی حکومت کی بے اختیاری، بے حسی اور منافقت کو بھانپتے ہوئے شہید بالاچ کے لواحقین، سول سوسائٹی ارکان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے شہید کا جسد خاکی دفنانے اور احتجاج کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہزاروں مرد اور خواتین کے جلوس نے شہید بالاچ کی لاش کو کوہ مراد میں دفنا دیا اور فدا شہید چوک پر دھرنا جاری رہا۔ بلوچ یکجیتی کمیٹی نے جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں قتل کے خلاف نہ صرف تربت میں دھرنا جاری رکھا بلکہ 26 نومبر 2023 کو اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی قائم کیا جس میں جبری لاپتہ محمد آصف ولد محمد پناہ کی بہن سائرہ بلوچ، جبری لاپتہ راشد حسین زہری کی عمر رسیدہ والدہ، لاپتہ جہانزیب بلوچ، لاپتہ سعید بلوچ اور جبری لاپتہ کئی دیگر بلوچ فرندوں کے لواحقین دھرنا دے کر بیٹھ گئیں۔
6 دسمبر 2023 کو تربت دھرنے کے شرکاء نے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، تربت سول سوسائٹی کے رہنما گلزار دوست بلوچ اور مولانا صبغت اللہ بلوچ کی قیادت میں کیچ سے کوئٹہ کی طرف گاڑیوں میں لانگ مارچ شروع کیا۔ کیچ سے کوئٹہ تک شہرک، ہیرونک، تجابان، پنجگور، رخشان کے علاقوں ناگ، چھڈ، بیسیمہ، خضدار کے علاقوں گریشہ، نال، خضدار شہر، سوراب، قلات شہر، منگچر اور مستونگ سمیت تمام چھوٹے بڑے دیہاتوں اور شہروں میں بلوچ عوام نے ریاستی دھونس و دھمکیوں، مقدمات کے اندراج اور فورسز کی کھڑی کی ہوئی تمام رکاوٹوں کے باوجود لانگ مارچ قافلہ کے ساتھ زبردست یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔
لانگ مارچ قافلہ راستے میں حکومتی سکیورٹی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈز کی ہر مداخلت اور رکاوٹ کو ناکام بناتے ہوئے 11 دسمبر 2023 کو کوئٹہ پہنچ گیا جہاں مہرنگ بلوچ و صبیحہ بلوچ کی قیادت میں بلوچ عوام نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ لانگ مارچ قافلہ نے سریاب میں دھرنا کیمپ قائم کیا۔ ریاستی رکاوٹوں، مداخلت، جھوٹے پروپیگنڈہ اور مقدمات کی اندراج کے باوجود کوئٹہ کے عوام نے لانگ مارچ قافلہ کے دھرنے، جلسوں، سیمینار اور ریلی میں بڑی تعداد میں شرکت کرکے ساتھ بے مثال حمایت کا اظہار کیا۔ کوئٹہ میں چار دن قیام کے بعد لانگ مارچ قافلہ 15 دسمبر 2023 کو مہرنگ بلوچ کی قیادت میں کوئٹہ سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا۔ کوہلو، رکھںی بارکھان، کوہ سلیمان کے علاقوں کھر اور فورٹ منرو، ڈیرہ غازی خان کے علاقوں سخی سرور، ڈیرہ غازی خان شہراور تونسہ شریف سمیت راستے میں ہر جگہ بلوچ عوام نے ریاستی اندازوں اور توقعات کے برخلاف بہت بڑی تعداد میں لانگ مارچ قافلہ کا استقبال کرتے رہے اور قافلے میں شامل ہوتے رہے۔
لانگ مارچ قافلہ کی حمایت میں کوہلو کے اب تک کی تاریخ کا بڑا استقبالی ریلی اور جلسہ ہوا جس سے بوکھلا کر ریاست نے حواس باختگی میں بارکھان اور ڈیرہ غازی خان میں لانگ مارچ کی حمایت میں سرگرم سیاسی کارکنوں، طلباء اور سول سوسائٹی ارکان کو گرفتار کرنا شروع کیا، دفعہ 144 ضابطہ فوجداری نافذ کرکے لوگوں کو اجتماع سے روکنے کی بھی کوشش کی مگر لانگ مارچ قافلہ اور بلوچ عوام کی عزم اور جرات کے سامنے سارے ریاستی ہتھکنڈے ریت کا ڈھیر ثابت ہوتے رہے۔ تونسہ شریف میں تاریخ ساز ریلی اور جلسہ کے بعد قافلہ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا جہاں پشتون رہنما علی وزیر خود اور مشر منظور پشتین کے خاندان اور پی ٹی ایم کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں بلوچ نسل کشی کے خلاف اس لانگ مارچ قافلے کا شاندار استقبال کرکے بلوچ اور پشتون یکجہتی کے تاریخی رشتے کو نئی توانائی فراہم کی۔
بلوچ نسل کشی کے خلاف یہ لانگ مارچ قافلہ کیچ مکوران سے براستہ پنجگور، رخشان، جہلاوان، سراوان، کوہ سلیمان اور ڈیرہ جات سے ہوتے ہوئے 20 دسمبر 2023 کی شام جیسے ہی اسلام آباد کے حدود میں داخل ہوا تو پولیس کی بھاری تعداد نے ٹینگرز، کنٹینرز اور خاردار تاروں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کرکے اس پرامن لانگ مارچ قافلہ کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ جانے سے روک دیا۔ لانگ مارچ قافلہ کے استقبال کیلئے تیاری کرنے والے بلوچ طلباء اور سول سوسائٹی ارکان کو بھی ڈی چوک سمیت کئی مقامات سے پولیس نے گرفتار کرنا شروع کیا۔ جب رات ہوگئی تو قافلہ کے شرکاء وہیں پر دھرنا دے بیٹھے جس جگہ پولیس نے انھیں روکا ہوا تھا۔ رات کو اسلام آباد پولیس نے بلا اشتعال لانگ مارچ قافلہ کے شرکاء پر اس وقت اچانک حملہ کردیا جب وہ سونے کی تیاری کررہے تھے عمر رسیدہ خواتین، سفید ریش بزرگوں اور معصوم بچوں پر پولیس وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے ان کو گرفتار کرکے مختلف پولیس تھانوں میں منتقل کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ 20 دن سے زائد عرصہ سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ میں پُر امن بیٹھے بلوچ خواتین اور معصوم بچوں پر بھی پولیس نے ہلہ بول کر بلا لاٹھی چارج کیا، دسمبر کی اس سرد رات میں ان خواتین اور بچوں پر پانی کے گولے برسائے اور انھیں گرفتار کرکے مختلف پولیس تھانوں میں منتقل کیا۔ صبح کو جب محترمہ ایمان زینب مزاری اور دیگر انسانیت دوست وکلاء نے اسلام آباد پولیس کی اس بلا اشتعال دہشتگردی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تو پولیس افسران اور اسلام آباد انتظامیہ جھوٹ پہ جھوٹ بول کر کبھی گرفتاریوں سے لاعلمی ظاہر کرتے، کبھی تشدد کو جھٹلانے کی کوشش کرتے، کبھی گرفتار افراد کی تعداد اور شناخت کو چھپانے کی کوشش کرتے تو کبھی تمام گرفتار افراد کو رہا کرنے کا جھوٹا بیان دیتے۔ اسلام آباد پولیس نے بلوچ نسل کشی کے خلاف اس پرامن لانگ مار اور احتجاجی دھرنا کے شرکاء کو زبردستی اسلام آباد سے بے دخل کرنے اور بلوچستان بھیجنے کیلئے بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ میڈیا کے رپورٹرز اور کیمروں کے سامنے بلوچ خواتین اور بچوں کوپولیس گھسیٹ کر زبردستی گاڑیوں میں ڈالنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر باضمیر ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹر نے ان خواتین اور بچوں کو ان کی مرضی کے برخلاف بلوچستان لے جانے سے صاف انکار کردیا۔ لانگ مارچ کے رہنما مہرنگ بلوچ کو پولیس تھانہ میں دوسرے خواتین سے الگ کرکے اس پر تشدد بھی کیا گیا مگر لانگ مارچ شرکاء کے آہنی عزم اور مزاحمت، بلوچستان بھر میں ان کی حمایت میں ہڑتال، جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کے آگے اسلام آباد پولیس اور ان کے فوجی آقائوں کو جھکنا پڑا۔ لانگ مارچ کے شرکاء پر تشدد اور دوسرے فسطائی حربوں نے نہ صرف بلوچ سماج کو جھنجھوڑ کر ان کی حمایت میں کھڑا کیا بلکہ پاکستان کا چھوٹا سا کمزور روشن خیال حلقہ، ریاستی جبر اور پابندیوں کے باعث خاموش میڈیا کا ایک حصہ، عوام کی ایک بڑی تعداد، ملالہ یوسفزئی اور گریٹا تھنبرگ جیسے عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کے علمبرداروں، اسلام آباد میں یورپی یونین اور سوئیڈن کے سفراء، جناب حامد میر اور جناب محمد حنیف جیسے پاکستان کے معروف صحافیوں نے بھی بلوچ نسل کشی کے خلاف اس پرامن لانگ مارچ کے خلاف ریاستی جبر اور طاقت کی استعمال کے خلاف کھل کر آواز اٹھایا جس کے باعث ریاست کو پسپا ہونا پڑا اور بلوچ نسل کشی کے خلاف کیچ سے اسلام آباد تک کا طویل اور پرخار سفر طے کرنے والا یہ لانگ مارچ قافلہ کے شرکاء آخر کار نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے پہنچ کر اپنے احتجاجی کیمپ کو دوبارہ لگا کر بیٹھ گئے۔ ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ یکجیتی کمیٹی اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا یہ احتجاجی کیمپ سرد ترین موسم اورتمامتر ریاستی تشدد، حراسمنٹ، غیر انسانی برتائو، جابرانہ ہتھکنڈوں اور سازشوں کے باوجود تادم تحریر ہذا قائم ہے جس کی حمایت میں بلوچ سماج سے باہر بھی ایک وسیع حلقہ آواز اٹھا رہی ہے تاہم فوج کی سہولتکار پاکستانی عدلیہ، سیاسی قیادت اور ان کی موروثی جاگیر جماعتیں اپنی آنکھوں، کانی اور زبانوں پر قفل لگا کر خاموش اور لاتعلق ہیں۔ بے اختیار اور وقعت سینیٹ کے اجلاس میں اس مسئلہ پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں پر مظالم کی سچی اور جھوٹی خبروں پر اپنا اور دوسروں کا گریبان اور گلا پھاڑنے والے پاکستانی مذہبی گروہ، جمہوریت کا جھوٹا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت اندھے، گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں کوئی بھی جماعت فوج {سلیکٹرز} کو ناراض کرکے فروری 2024 میں متوقع عام انتخابات {گرینڈ سلیکشن} میں فوج اور انٹیلیجنس کے دست شفقت اور اپنے حصے سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔