آواران، بلوچستان کا وہ ضلع ہے جو وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بدترین غربت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ پچھلے 20 سالوں سے یہاں کی سیاست پر چند مخصوص شخصیات، جیسے کہ قدوس بزنجو، جمیل بزنجو، اور حاجی نصیر قابض رہے ہیں،اور اب ایک نیا قابض جو خیرجان کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس عرصے میں آواران میں کوئی خاطرخواہ ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ بنیادی سہولیات، جیسے صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی حالت دگرگوں ہے، جس کی وجہ سے عوام مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔

آواران کے عوام پر قدوس بزنجو، جمیل بزنجو،حاجی نصیر اور خیرجان جیسے مقامی سیاستدانوں کے بیانات اور وعدوں کے اثرات اور عمل کی حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان شخصیات نے پچھلے بیس سالوں سے اپنے آپ کو علاقے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے علمبردار کے طور پر پیش کیا، مگر افسوس کہ یہ دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔ عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے محض انتخابی مہم کی سیاسی بیان بازی تھی، اور حقیقت میں آواران کی ترقی اور عوام کی حالتِ زار میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔
آواران، جو معدنی وسائل اور خوبصورت وادیوں سے مالا مال ہے، ایک بہتر مستقبل کے لیے بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہاں کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں اصلاحات تو دور کی بات ہے، یہاں کے عوام کو پینے کا صاف پانی، بجلی اور سڑکوں کی مرمت جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر قدوس بزنجو، جمیل بزنجو اور حاجی نصیر نے بیس سالوں میں ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کیا ہوتا تو آج آواران کی یہ حالت نہ ہوتی۔
ان شخصیات نے بارہا عوام کو اپنے خوابوں میں مگن رکھنے کے لیے لمبے چوڑے وعدے کیے، مگر عمل اور حقیقت ان وعدوں سے کوسوں دور رہی۔ صحت کے مراکز ویران پڑے ہیں، اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد ناکافی ہے، اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آواران کے نوجوان روزگار کے لیے دیگر شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ آواران کے مقامی لیڈران نے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کا استعمال اپنے ذاتی مفادات کے لیے کیا۔
اب جب یہ سیاستدان ایک بار پھر عوام کی "فلاح و بہبود” کے نام پر سرگرم ہوئے ہیں اور وعدے کر رہے ہیں کہ وہ زامیاد مالکان کی فہرستیں یعنی زامیاد لسٹوں کو بحال کریں گے، تو عوام کو ان پر سوال اٹھانے کا حق ہے۔ آواران کے عوام ان بیانات کو ان سیاستدانوں کی ماضی کی پالیسیوں اور وعدوں کے پس منظر میں دیکھتے ہیں اور ان کے خالی دعوؤں پر اعتبار نہیں کرتے۔ عوام کو محض وعدے اور خواب نہیں، بلکہ عمل اور ترقی کی عملی تصویر چاہیے۔
اہلیان آواران کی طرف سے اس رویے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان سیاستدانوں سے جواب طلب کرتے ہیں کہ آخر بیس سالوں میں آواران کی تقدیر میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ عوام کو نظر آنے والی بہتری کیوں نہیں ہے؟ محض کاغذی منصوبے اور وعدے کب تک عوام کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ آواران کے عوام کا حق ہے کہ انہیں حقیقی ترقی ملے، اور انہیں صرف انتخابی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
آواران کے عوام کے ساتھ کی جانے والی اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ان نام نہاد لیڈران کے کھوکھلے دعوؤں کو پہچانیں اور ان سے جواب طلب کریں۔ تبدیلی وہی لیڈر لا سکتا ہے جو عوام کی مشکلات کو دل سے محسوس کرے، نہ کہ وہ جو عوام کو صرف ووٹ کے حصول کا ذریعہ سمجھے۔