اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں ۔ کے بی فراق

ڈاکٹر عبدالعزیز کا کمال یہ تھا کہ وہ ہمہ وقت خدمتِ خلق کے لئے تیار رہتے اور اس میں وقت کی قید نہیں رہتی اور نہ ہی بہانے کی صورت ہوتی کہ ذرا ٹھہریں یہ کام کرنا ہے بلکہ اپنے سب کام چھوڑ کر وہ خدمتِ خلق کو اولیت دیتے یہی عالم اسےکورونا کے دنوں میں مریضوں کے ساتھ دیکھا ئے۔

میں نے جب انھیں ناخدا خدا بخش ملگ کے فوتگی کے دن دیکھا تو کورونا کے حوالے کچھ پوچھنے لگا کیونکہ اس وقت کورونا اپنے آغاز میں تھا اور شدید تھا۔بیشتر لوگوں، بالخصوص ڈاکٹرز نے اپنی سرگرمیاں اور ملنے سے منع کررکھا تھا لیکن ڈاکٹر عبدالعزیز نے یہ کہہ کر کہ اگر ہم ان مفلوک الحال لوگوں کے علاج کے لئے ہسپتال نہیں جائیں گے۔۔۔۔تو انھیں کون دیکھے گا اور کون ان کا علاج کرے گا۔
البتہ ڈاکٹر اس بابت کمیٹڈ رہے۔اور انھوں نے اپنے پروفیشن میں انسانیت کو کہیں بھی پرے رکھنے کا سوچا بھی نہیں۔
بہت پہلےجب میں نے اپنے ایک فرنچ دوست کے ذریعے کچھ چیزوں کا اہتمام کروایا تاکہ دشت سوئی میں جا کر کیمپ لگائیں۔کیونکہ اُن دنوں بارشوں کے سبب وہاں کے لوگ بہت متاثر ہوئے۔اس حوالے سے میں نے اس کی نشاندھی کی تو وہ مان گئے۔جب چیزیں کوئٹہ سے گوادر پہنچ گئیں تو میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ دشت سوئی چلنا ہے۔
فوراً کہہ دیا،
ٹھیک ہے کب تک روانگی ہے۔
میں اپنی گاڑی بھی ساتھ لاتا ہوں۔

اور اس ٹرک کو پھر دوائیوں اور دیگر اشیاء سمیت روانہ کیا گیا تو ہم ڈاکٹر کے ساتھ اس کی گاڑی میں سوار ہو کر چل نکلے۔وہاں پہنچنے تک خاصہ وقت نکل گیا لیکن لوگ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور یہ گھڑی اُن لوگوں کے لیے بھی انمول رہا کہ وہ ڈاکٹر عزیز کے ساتھ وابستہ رہے۔ہمارے ہاں ایک ڈاکٹر ہی تو ایسا کردار ہے جو عام لوگوں کے ساتھ جُڑے رہتا ہے ایک طرح سے ان کے خاندان کے ایک فرد کی طرح شاملِ حال ہوتا ہے۔
پتا ہے اِن دنوں یہ احساس اُس وقت سوا ہوا جب ایک ڈاکٹر دوست کے پاس بیٹھا اور کسی مریضہ کے ہاتھ میں پانچ سو والا نوٹ دیکھا جو اسے کچھ اس طور بھینچ کے پکڑے رکھی تھیں تاکہ کہیں گِر نہ جائے اور اس کی حالت بھی اس کے وجود کی طرح ازیت کوش دکھائی دی،
جانے اس کی ذہنی حالت کیسی ہوگی۔جب وہ اس پانچ سو کے نوٹ کو اس طور سنھبالےرکھی تھیں جیسے وہ خود کو بھی کسی ازیت سے بچائے رکھنا چاہ رہی ہوں۔

اگر اس بیچ ڈاکٹر عزیز ہوتا تو ضرور اس کیفیت سے نکالنے کے لئے اس سے کچھ بات کرتی تاکہ اس کو ڈھارس ہوتی اور ایک طرح سے قرار کا احساس بھی در آتا۔ ویسے بھی ریاست نے عام لوگوں میں جینے کی قدرت چھین لی ہے اور وہ خود بھی مختلف نوعیت کے نفسیاتی آزار میں مبتلا دکھائی دیتے ۔اگر کوئی اس کو دستاویز کرنے اور انکے کیس ہسٹری اور کیس اسٹڈی لکھنے کا تہیہ کرلیتا تو جانے کتنوں کا ایک بھرپور نوعیت کے احوال نامہ،ازیت نامہ کی شکل میں تیار ہو پاتا۔جس سے ریاستی جبر اور استحصال کے مختلف جہات کو لیے ایک پرتو بھی دکھائی دیتا لیکن اس بابت شاید ہی کسی نے سوچا یا ذہن ببایا ہو ۔تاہم بیشتر ڈاکٹرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ کیررسٹ بن کر اپنے آئندہ کو پُرتعیش زندگی کی صورت بنانے سنوارنے میں جُٹے ہوئے ہیں جن کے لیے خام مواد یہی خستہ حال لوگ ہی تو ہیں، پر اب کے ڈاکٹر عزیز تو نہیں جو کبھی مجھ سے مخاطب ہوکر کہتے کے بی!

پشکان کے احباب نے ایک لکچر سیشن کا اہتمام کر رکھا ہے، چلنا ہے اور مَیں کہتا، ضرور چلتے ہیں۔جس میں ان کی دیے گئے موضوع پر مجھے بولنا تھا۔

اور پھر اگلے دن رفتار پکڑتی گاڑی اور ڈرائیونگ کرتا ڈاکٹر، مجھ سے باتیں کرتاہوا سفر کرتے رہے چونکہ یہ سفر اب تک جاری ہے۔۔ لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر اب کے ڈاکٹر صاحب تو نہیں رہے تاہم ایک اکیلا ویکتی دھول اڑاتا سفر کناں ہے۔لیکن تب سے لے کر اب تک کسی اور کی زبان سے یہ شبد سُنتا ہوا نہیں دیکھ رہا ہوں کہ انہی لوگوں میں رہ کر بجا کام کرنا ہے۔تاکہ لوگوں میں زندگی کی رمق اور جینے کا حوصلہ پیدا کرنے کا باعث بنے رہیں۔اس لیے اب کے کسی نہ کسی ڈاکٹر کو کسی دوا ساز کمپنی سے سازباز کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جن کے لیے مریض انسان نہیں بلکہ کموڈٹی ہیں اور ان کے لیے تعینِ قدر کرنا محض بازار کرن ہے۔سو وہ لگے ہوئے ہیں،اگر کوئی رہ گیا تو وہ سلف سنٹرڈ کی طرح اپنی کرسی پر دُبکے بیٹھا ہے یا پھر کسی اور شکل میں دوا ساز کمپنیوں سے اپنے اپنے عمرہ حج کے ٹکٹ پکی کرنے یا پھر کسی یورپی ملک میں جا کر موج مستی میں مگن رہنے کے لیے کسی دن رختِ سفر باندھنے پہ تیار رہتا ہو۔
آخرش اسی کردار کو کسی تبلیغی جماعت میں استغفار کرتے ہوئے دیکھیں گے کہ زندگی میں خدا کی یاد کبھی آئی نہیں البتہ بندے کی زندگی بچائے رکھنے میں دھیان گیا نہیں۔

یا پھر انھیں مریضہ/مریض کو سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی کے وقت اور ساتھ ہی یہ کہنا کہ میں اپنے گھر جارہی ہوں وہاں بھی مریضوں کو دیکھتی ہوں چونکہ گھر میں ذاتی کلینک کرتی ہوں۔سو آپ وہان آنا، میں وہان ہوں گی۔

کبھی سوچتا ہوں کہ جنگ زدہ علاقہ ہے، جنگ زدہ لوگ ہیں جنگ سے متاثرہ کردار ہیں جنگ زدہ معاشرہ ہے اور جنگ زدہ معاشرے میں ڈاکٹر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ پی سی ایس سی ایس ایس کا لوگوں کے ساتھ تعلق کیسا ہے اور یہ بھی انہیں ریاستی مشنری کی طرح مفتوحہ سمجھ کر ازیت میں مبتلا کرنے کے طریقے وضع کر رہے ہوتے ہیں تاکہ زندگی اس دھرتی سے کوچ کر جائے اور محض موت کا سکہ رائج اوقت ہو۔
اس لیے موت دینا معمول میں شامل ہے اور اس کام کے لیے مامور ریاستی مشنری کے کل پُرزے بڑی تسلسل کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔تب تک کوئی ڈاکٹر عزیز ایسا کردار در آئے اور سامنے بیٹھے کسی دوا ساز نمائندے کو بڑی سختی سے منع کرے اور کہے کہ وہ دروازہ ہے اور اپنا راستہ لیں۔اور بالکل یہی نکتہ زیرِ بحث لائے کہ ماہیگیروں کی زندگی کو ٹرالر مافیا نے اجیرن بنائے رکھا ہے اس لیے صف بندی کریں اور مافیاز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور پھر یونہی منطق تراش لیتے کہ گوادر میں سیاسی کارکن کے لیے وہ دن موت کے موافق ہوگی جب اس کو مراعات کی لت لگ گئی اور موقع پرستی نے سیاسی جہد و کیڈر کو محض ایک دوسرے کی آرتی اتارنے کے کام میں بروے کار لانے لائق چھوڑا تب سب کچھ غارت ہوئی اور اس غارت گر کہانی کے کرداروں میں اب تک خوداعترافیت کی جرات کسی میں نہ ہوئی جو بدلاؤ کو صورت پزیر کرتا۔اور انسانیت اساس معاشرے کی تخلیق و تعمیر کا باعث بنتے۔

              بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
             ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

             میر

Remembering Doctr Abdul Aziz
GEEWS Gwadar

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

آزادی کے خواب اور محبت کی سرگوشیاں: ایک سپاہی کا خط ۔تحریر: ہیبتان

بدھ نومبر 6 , 2024
اے میرے ہمسفر؛ یہ جنگ، جو بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑی جا رہی ہے، میرے دل و جان کا خواب ہے،جس کے لیے ہزاروں نوجوان شہید ہوئے اور ہزاروں ان سرد راتوں میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر مورچہ زن ہیں۔ میں بھی اسی جنگ کا ایک گوریلا سپاہی ہوں۔ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ