مشکے کالار کا فدا کسی یونیورسٹی سے فارغ طالب علم نہیں تھے، وہ مشکے گجر کے پرائمری اور ہائی سکول سے فارغ ایک معمولی سا جوان تھا، وطن کا عاشق اور محمد جان کا بیٹھا تھا، فدا بلوچ جس کا شعور بی ایس او آزاد کے سرکلوں سے رونما ہوئی، حالات بدلے تو جنگی محاذ پر چلے، بی ایل ایف کے جانباز سپاہی بننے اور نڈر جنگی سرفروش بہادر سردو کے ہمراہ رہے اور اس کا پڑوس اور ان کے بچپن کے دوست حیران تھے کہ یہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ لیویز فورس میں تھے، نوکری چھوڑ دیا، ان کے گھروں پر چھاپے ہوئے لیکن وہ ہارنے کا نام کیوں نہیں لے رہا؟

بہت سارے لوگ جنہیں بندوق اٹھانے کا بڑا شوق تھا انہوں نے سرنڈر کیا،اب مشکے گجر کالج کیمپ کے نزدیک اپنے اپنے گھر بنا چکے ہیں، ڈیت اسکواڈ کے اشکال میں سامنے آئے، آزادی پسندوں کے گھروں کو جلانے لگے، جوانوں کو پکڑوانے لگے۔ بہت سے لوگ تنگ آکر اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں سے چلے گئے اور واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
میں دس جماعت کا طالب علم اتنا شعور بھی نہیں رکھتا تھا کہ گوریلہ جنگ کو سمجھ سکوں۔ یہ میرا ایمان تھا کہ بلوچ قومی تحریک سبوتاژ نہیں ہوگی کیونکہ ہم جن بلوچ جوانوں کو سرکلوں میں دیکھتے وہ کسی کے جال میں پھنسے والوں میں سے نہیں تھے، ان کے آنکھوں سے انقلاب دکھتا، وہ کوئٹہ اور کراچی میں پڑھ کر یہاں تو وطن کی آزادی کا جنگ لڑنے آئے تھے،کم از کم وہ تو ہارنے والے نہیں لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ اس دیہی علاقے سے سر اٹھانے والا، گوریلہ حکمت عملیوں سے لیس یہ فدا وطن کا سچا عاشق نکلے گا، کسی دن امر ہوجائے گا، اپنے سرنڈر شدہ رشتہ داروں اور ہمسایوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے چلتے ہیں اور ایک دن سرباز وپا اپنے قلم کی نوک سے ان کے کارناموں کو کتاب کی شکل دیکر ہم تک پہنچا دیتے ہیں۔ آخر وہ تو سچا عاشق ہی نکلے۔
نسبتاً اس جانباز سپاہی کی کہانی دردناک ہے۔ فدا کے گھر کے قریب ایک کھیت ہے، اس کھیت میں ایک مشین بھی ہے جہاں روز نہانے جاتا، بزگر اور زمینداروں کے ہاں میرا ملنا جلنا تھا، اس کا چھوٹا بھائی لیاقت ہمارے اسکول کا ایک طالب علم تھا اور میں اس کا ایک دوست تو نہیں تھا لیکن میرے ساتھ جو دوست اکثر وہاں کھیت میں آتا تھا وہ روز لیاقت کو وہاں بلا کر ان سے مل کر روز مرہ زندگی کے سفر پر باتیں کرتے اور میں سنتا، کبھی موبائل استعمال کرتے اور ایک دوسرے کیلئے ہندی فلموں کو سنڈ کرتے رہتے۔۔۔ کبھی کبھار فدا وہاں آتا اور لیاقت کے ساتھ بات چیت کرکے چلے جاتے۔۔۔۔مشکے میں سرمچاروں کا آماجگاہ تھا، وہاں وہ روز ایسے دوست نظر آتے۔۔
تقریبآ دوہزار تیرہ کا زمانہ تھا۔۔۔۔ کالار اور النگی سے تعلق رکھنے والے جانباز بلوچ سرمچاروں کو قریب سے دیکھتا رہتا۔جن میں سے ایک گلزمان تھے۔ ایک بار شہید گلزمان کے گھر پر حملہ ہوا تھا کہ جہاں عصیب بلوچ دشمنوں کے ساتھ لڑ کر شہید ہوئے اور شہید گلزمان سمیت دوستوں کے ساتھ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم کچھ دوست عصیب کے گھر تدفین کے لئے گئے تھے تو وہاں ان کے خاندان والوں کے پاس رونے دھونے کا سین نہیں دیکھا بلکہ وہ بڑی دلیرانہ انداز سے کہتے نظر آتے کہ ہمارے بچے نے وطن کیلئے جان دیا ہے۔۔۔ کوئی تدفین اور غم کی بات نہیں۔۔!!
میں خوش قسمت تھا کہ میں مشکے میں پرآشوب تحریک کے اس تاریخی دور کا مشاہدہ کر رہا تھا، فدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا تھا، جن جگہوں میں انہوں نے جنگیں لڑی تھی ان میں سے کہیں جگہوں کے ایسے ہی کہانیاں سنا تھا جن کا ذکر سرباز وپا اپنی کتاب” جنگولیں فدا ” میں کرتے ہیں۔
فدا اک باب تھا، کہانی کا۔۔۔۔ اس کے کندے پر ایک کلاشنکوف تھا لیکن عبدلخالق عرف سردو کے بعد ایک سرخ اسنیپر اپنے کندے پر رکھ کر گورجک اور کالار میں دکھتا۔ سردو سے تو بہت کم لوگ واقف تھے لیکن ان کا نام سن کر ہر کسی کو خوف محسوس ہوتا، عام بندے تو اس کے فالورز تھے، کوئی کہتا کہ یہ سردو کسی وطن فروش کو چھوڑنا والا نہیں، سرعام دن دہاڑے فوجی کیمپوں پر حملہ کرتا ہے، یہ دشمن کی نیند کو حرام کرنے والا سردو ہے، بابا۔
اگرچہ کسی نے دیکھا نہیں تھا لیکن سب ان سے پیار کرتے اور ان کا نام سن کر کسی کو اطمینان تو محسوس ہوتا۔ جب سردو اور پیٹر تنک مھری کوہ کے نزدیک دشمن کے گولیوں کے زد میں آکر امر ہوئے تو انور دوسرا شخص تھا کہ جنہوں نے سردو کے بعد جنگی میدان میں اپنا ایک الگ نام کما لیا تھا، لوگ انور سے زیادہ نزدیک اور ان سے اپنے کہانیاں سناتے، گجر میں کہیں غریبوں کے چھوٹے موٹے معاملات کو سلجھاتے اور آپسی تضادات کو ختم کرکے لوگوں کو شیر و شکر کرتے نظر آئے۔ اس کی تعریف جتنا کروں تو بھی کم ہے۔ مجھ سے بہتر سرباز وفا نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے جس کو پڑھ کر قارین لے ذہن میں یہ بات ضروت آئے گا کہ وہ” جنگی جوان” تھے۔ انہوں نے نہ صرف مشکے بلکہ پورے بلوچستان کے جوانوں میں اپنے لیئے ایک رتبہ پیدا کیا ہے۔
یقیناً کسی استحصال زدہ قوم کا سر فخر سے تب تک بیدار رہتا ہے جب تک کہ ان کے بچے اور بچیاں اگلی نسل کو بھی عزت نفس اور قربانی کی روایات سکھاتی رہتی ہیں۔ نیز یہ بات یقینی ہے کہ بلوچ قوم کا مستقبل اسی وقت روشن ہوتا نظر آئے گا جب ہمارے جوان بچے اور بچیاں اپنے ماضی کے تجربات، اپنے قومی ہیروز اور ورثے کے فخر سے وابستہ ہوکر اس محاذ کے ساتھ کھڑے ہوکر ہر موڈ میں دشمن کو پسپا کرنے کا سوچتے ہیں. بلوچ قوم کے پاس فخر کرنے کے لیے ایک اتھاہ ذخیرہ ہے، فدا جیسے نڈر جنگی سرمچاروں کی کہانیاں ہیں، ایک بھرپور مزاحمتی تاریخ ہے، ایک شعوری ثقافتی ورثہ ہے اور ایک الگ قومی پہچان ہے۔