کانٹوں سے بھری رستے کا مسافر ہم میں نہ رہی، وہ ہمارے درمیان تلخ حقیقت سے آشنا کھلم کھلا کہتی” یہ نوبادیاتی نظام کے جڑوں کو اکھاڑنا ہے لیکن بیشتر جوان بیگانہ رہ کر آخر کب تک خود سے جھگڑتے رہیں گے!”
وہ کہتی کہ ” عمومآ کمزور اور بے بس انسان کسی ظالم کے خلاف شکایت کرنے لگتا ہے تو اس کا پڑوس اور رشتہ دار سب کہتے ہیں کہ خاموش ہوجاہو۔ اس لیئے جن انسانوں کی آنکھیں تیر کا مقابلہ کرنے پر آتی ہیں انہیں وہ پھوڑ دیتی ہیں۔ ان جوانوں کو ہمت نہیں ہارنا ہوگا بلکہ چٹان بن کر دشمن کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے.”
محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کبھی اکیلی سیاسی میدان میں اس قدر شاندار کردار کی ملکہ ہوتی بھی ہے کہ کل لڑکیاں خود بہ خود ہی سرکلوں کو جوائن کرتی نظر آئیں گیں۔ وہ بھی کمال کی تھی!
کبھی یونیورسٹی کے کینٹین میں آکر ، تو کبھی لیبریری میں آکر ہمارے ساتھ ادبی موضوعات پر بحث کرتی ۔ ہمارے درمیان کا گفتگو سیاسی و ادبی کا تھا۔ وہ شعبہ پولیٹکل سائنس پڑھ رہی تھی اور میں ادب کا معمولی سا طالب علم اس کے ساتھ مغربی پولیٹکل تھاٹ اور بلوچ پر باتیں کرتا۔
جس نے حمیدہ کو قریب سے دیکھا ہوگا کہ کس صفحہ پر کھڑی تھی وہ راہِ حق کے مسافر۔۔۔ کہیں دوست اعتراز کرتے کہ حمیدہ سیاسی نہیں بلکہ جنگی عورت ہے کیونکہ وہ اپنی بھائی کی تصویر کو باربار فیسبک پر اپلوڈ کرتی ہے، یہ سیاسی میدان میں قابل قبول نہیں کہ کوئی سرعام اپنے شہید بھائی کا اس طرح تصویر اپلوڈ کردیں! ان جوانوں کا بھی قصور نہیں کیونکہ انہیں بہنوں کے ساتھ یہ خوبصورت رشتہ نظر نہیں آیا ہوگا!
محبت کا اظہار تو سرعام ہوتا ہے کہ جس طرح ہانی اور شئے مرید کا تھا، للہ و گراناز اور رضا جہانگیر اور وطن کا تھا!
بقول جبران "محبت کرو ، کھل کر کرو ، سرِ عام کرو ، بلا جھجک کرو، مگر محبت کرنے کے ساتھ ایک دعا کرنا مت بھولو ، اور پرکھ بھی لو یہ تمہارا حق ہے۔”
شاید انہی نقطہء نظر سے لیلی خالد نے کہی تھی:
"عورت ایک جنگجو، آزادی پسند اور سیاسی کارکن ہو سکتی ہے،وہ محبت میں پڑ سکتی ہے اس سے محبت کی جا سکتی ہے، وہ شادی کر سکتی ہے، بچے پیدا کر سکتی ہے، ماں بن سکتی ہے۔” یہ وہی لڑکی تھی کہ جو ایک ماں بھی تھی، ایک جنگجو اور ایک سیاسی لڑکی بھی جس کی محبت وطن کیلئے پاک اور شفاف پانی کی مانند تھا! ہم نے زمین اور مرد کے درمیان کے رشتے کو ہانی اور شئے مرید کے درمیان کے پاک محبت سے تشبیہ دیا ہے لیکن اب اس محبت کو کیا نام دوں کہ جس کا اظہار ایک لڑکی اپنی زمین سے کرتی یے؟
ہمارے ہاں تنقید کا فرسودہ رواج ہے۔ شاعری، سیاست، قانون، فلسفہ، ادب، الغرض کوئی شعبہ ہو، اس میں نئے پن، نئے معنی، نئے تخلیقات، اور نئی گنجائش پیدا کرنی کی کسی بھی کوشش کو سراہا نہیں جاتا بلکہ اس پر تنقید کرتے ہیں،ہمارے لوگ۔
کبھی حمیدہ کو دیکھ کہ سیاست کی میدان میں بہت کم ایسی عورتیں ہیں جنہیں ظلم سے نفرت اور زمین سے پیار ہے۔ یہ حمیدہ ہی تو تھی کہ قوم سے بھی کھلم کھلا محبت کرتی تھی۔
اس ظلم کے کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہم لوگ روز نئے کہانی کا مرکزی کردار بنتے ہیں، کوئی انڈیا کے ایجنٹ کے نام سے پکار کر ہمیں اٹھا لیتا ہے، کوئی ملک دشمن اور دہشتگرد کا ٹپہ لگا کر دم لیتا ہے۔
کسی کو نظر تو آرہا ہے کہ چپ چاپ نہ ڈوبنے کی سزا دن رات کاٹ لیتے ہیں ،ہم۔
ایسے میں کوئی باشعور بندہ جوان پُرجوش قومی سوال کو دماغ میں رکھ کر میدان میں اترتا ہے اسے جلد ہی خاموش کرایا جاتا ہے، خاموش نہیں ہوتا تو مار دیا جاتا ہے، مارا نہیں جاسکتا تو انہیں ٹوئٹر اور فیسبک اکاؤنٹ پر پنجابی گالیاں دیتے ہیں۔
لیکن کوئی تحریک سے کنارہ کش نہیں ہوا ہو تو وہ اپنی مثال خود ہے۔ حمید بھی اپنی مثال خود ہی ہے۔۔۔!
مابعد نوبادیاتی حاشیہ زدہ ثقافتوں کے اہل قلم کی نوک سے آپ کی کہانی ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جہاں قاری اور راقم دونوں کو ہی پہلے رونا آئے گا کیونکہ تو انقلابی تھی! اور، بقول چی گویرا، دنیا کا ہر انقلاب عورت کے بنا ادھورا ہے۔ آپ وہی عورت ہو جو انقلابی تھی، ایک چٹان کی مانند کھڑی نظر آتی، دوہزار بیس کے دوران بساک کے دوستوں کے ساتھ کھڑی اتنی ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کرتی نظر آرہی تھی کہ کبھی کسی کو بھولنا نہیں چاہیے، تماری جرت کے حوالے سے۔۔۔!
وہ واحد سیاسی لڑکی تھی کہ جس کے ہاں جاکر ہم بذات خود سکون اور اطمینان محسوس کرتےکہ اب بھی ہم تقسیم نہیں کیونکہ ایک لڑکی ہمارے ساتھ ہے۔
شاید اسی لمحے کا اندازہ لبنان کے خلیل جبران کو تھا کہ اس نے لکھا تھا کہ ” جیسے خوشبو کے بغیر پھول ہوتے ہیں، قسمت کے بغیر خوبصورت عورتیں ہیں۔” اس وقت قسمت ساتھ نہیں دے رہا تھا بلکہ یہی لڑکی کی تھی کہ سہارہ بن کر ہمیں حوصلہ بخش دیتی کہ میں تو ساتھ کھڑی رہوں گی..
وہ ایک ایسے گاؤں میں جنم لے چکی تھی کہ جہاں شئے مرید پیدا ہوئے تھے۔ ایک ایسی شئے مرید جس کا ہانی یہی وطن ہے، وہ اس سرزمین کیلئے امر ہوا۔ اسی قبرستان پہ حمیدہ اپنی بھائی کے ہاں جاکر دوبارہ اس کے گالوں پر چما لیکر رضا جھانگیر اور میر جان سے ہماری درد بھری کہانی کو سنائے گی!