دُنیا میں جب سے طاقتور قوموں نے کمزور قوموں پر حکمرانی کرنا شروع کیا ہے تب سے محکوم قومیں اپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑنا شروع کیا ہے کچھ قومیں چند برسوں میں آزاد ہوئی ہیں جبکہ کچھ قومیں سینکڑوں سالوں تک غُلام رہے ہیں اور ترقی سے محروم رہی ہیں، اسکی واحد وجہ یہی ہے کہ آزادی کی جنگ میں کہیں حکمت عملیاں برائے نام ہی رہے ہوںگے جنگ کو محض بندوک اور تلوار کے بھروسے چھوڑا گیا ہے اسی وجہ سے دشمن اپنے جدید ترین ہتھیاروں سے باغیوں کو زیادہ تر محاذوں پر شکست دینے میں کامیاب رہے ہیں۔
اگر بات ہماری موجودہ جنگ کی جائے تو 2006 سے جنگ مزید شدت کے ساتھ آگے بڑھتا جا رہا ہے، شروع شروع میں بہت سے محاذوں پر سرمچاروں کو شکست کا سامنا رہا ہے اور قوم بھی کہیں کہیں مایوس ہوا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جنگی حکمت عملیوں میں فرق دیکھا گیا ہے حکمت عملیاں تبدیل ہوتی گئی ہیں۔
موجودہ جنگ میں ہماری ایک کمزوری بھی ہے کہ ہم اپنی حکمت عملیاں اپنی پالیساں تب تبدیل کرتے ہیں جب ہمیں نقصان پہنچتا ہے، جب تک ہمیں پہلے والے پالیسیوں سے نقصان نہیں پہنچتا ہم انہی حکمت عملیوں کو لئے آگے بڑھتے رہتے ہیں جو کہ ایک خطرناک عمل ہے، جنگی حکمت عملیاں کم اِز کم ہر تین مہینوں میں تبدیل ہونی چاہئے تاکہ جدید ترین حکمت عملی اپنا کے دشمن کو ہر محاذ پہ نا صرف جنگی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی شکست دے سکیں، جنگی حوالے سے شکست کھایا ہوا دشمن دوبارہ جنگ لڑنے کی ہمّت کر سکتا ہے لیکن نفسیاتی طور پر شکست خوردہ دشمن دوبارہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہتا۔
ہمیں چاہئے کہ جدید تریں ترقیاتی دنیا کو دیکھتے ہوئے ٹیکنالوجی سمیت ہر فیلڈ میں اپنے آپکو تیار رکھیں اپنی حکمت عملیوں کو دشمن کی سوچ بھی زیادہ تبدیل کریں تاکہ دشمن کبھی بھی ہمیں سمجھ نہ سکے، جب دشمن ہمارے جنگی حکمت عملی کو سمجھنے کے قریب ہوگا تب ہم اپنی حکمت عملی تبدیل کریں گے تو سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے بلکہ دشمن ہم پر حملہ کرنے کی بجائے اپنا سارا وقت اور معیشیت اپنی حفاظت اور ہمیں سمجھنے کیلئے خرچ کر یگا جبکہ پہلے سے تیار سرمچار دشمن پر مختلف طریقوں سے حملے کرتے رہیں گے۔
ہمارے ناقص رائے میں رواں جنگ میں ہماری حکمت عملیاں ابھی بھی پُوری طرح سے درُست نہیں ہیں، زیادہ سے زیادہ وقت ان چیزوں پر خرچ کرنا چاہئے۔