شال ( نامہ نگاراں ، ویب ڈیسک )بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مہم، “خاموشی توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ،آج بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام جبری گمشدگیوں کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی قیادت میں سریاب روڈ یونیورسٹی چوک سے ریلی نکالی گئی جو مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے عبدالستار ایدھی چوک پر پہنچ کر احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کر گئی۔
ریلی کے شرکاء نے بینرز، پلے کارڈ اور لاپتہ افراد کی تصاویر اٹھا رکھے تھے، مظاہرے میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین و شہری بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، غلام نبی مری اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا احتجاج لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس میں ملوث عناصر کو بلوچستان نکالنے کے لئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پر امن احتجاج اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جتنا روکا جتنی قدغنیں لگائی گئی ہیں، ہم اتنا ہی منظم اور مضبوط بن کر ابھرے ہیں ،ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب اداروں نے بلوچوں کو زبردستی روکنے کی کوشش کی ہے ہم اور بھی شدت ، طاقت اور منظم انداز میں نکلے اور ابھرے ہیں، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کے لئے آج کی یہ ریلی اور دھرنا ان قوتوں کے لئے ایک واضح پیغام ہے ۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اسی طرح احتجاج سے ذاکر مجید نکلا ہے اور دیگر بھی نکلیں گے کیونکہ یہ اجتماع اور احتجاج بہادروں کو پیدا کرے گا جو زندانوں میں بھی بلوچوں کیلئے نعرے لگائے گا جو بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرے گا وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے۔
مقررین کا کہنا تھا آج کے اس پر امن احتجاج کے توسط سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری سرزمین پر جبری گمشدگیوں میں ملوث لوگوں کو یہاں سے نکالاجائے ،
انھوں نے کہاکہ ہم احتجاج میں شریک جبری گمشدہ ہونے والے افراد کے لواحقین سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی فہرستیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پاس جمع کروائیں تاکہ ان لاپتہ افراد کی بازیابی کو ممکن بنانے میں آسانی ہو۔
مظاہرے دوران جبری لاپتہ محمود علی لانگو کی بوڑھی ماں تقریر کرتے ہوئے روپڑیں اور نڈھال ہوکر گر پڑیں ۔
جلسہ کے اختتام پر مظاہرین لاپتہ افراد کی بازیابی اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہوگئے۔