اس غیر مہذب سماج میں ہمیشہ طاقتوار استعماری اشرافیہ اور قبضہ گیر ریاستیں مظلوم اقوام پر اپنی طاقت کی گھمنڈ اور اپنی ریاستی مفادات کی نشے مین مدہوشی کی عالم میں حملہ آور ہوہے تو محکوم اقوام کی خواتین نے بھی اپنی شناخت اور بقا، سرزمین کی دفاع کیلئے مرد حضرات کی شانہ بشانہ استعماری قوتوں سے لڑنے کی جوہر دیکھاتی ہوئی تاریخ میں اہم مقام پائی۔
ان مظلوم و محکوم قوموں میں بلوچ بھی ان استعماری قوتوں اور قبضہ گیریت کی شر اور بربریت کی جبر سے بچ نہ سکا۔ جب سے سماج میں استعماری اور قبضہ گیریت کی ناسور رجحان کی تخلیق طاقتور ریاستی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے 1839 میں بلو چ ریاست کو تاراج کر کے بلوچ قوم کو مزاحمت کرنے پر مجبور کیا۔
طاقتور ریاستی افواج نےہروقت کمزور اور محکوم ریاستوں پر یلغار کر کےکمزور ریاستوں کو تاراج اور اپنی زیرنگر کرنے کیلئے حملہ آور ہوئے توان ریاستوں کی مال و مڈی لوٹتے کے ساتھ ان کی نسل کشی جاری رکھتے ہوئے اپنے قبضہ گیریت کو مقبوضہ ریاستوں پر مسلط کرتے رہےجس کی ردعمل میں1948 سے پنجابی یلغار اور قبضہ کے خلاف بلوچ قوم روز اول سے مزاحمت کرتا چلا آ رہا ہے۔ جو ہنوز پپنجابی استمعارتی غیر مہزب ریاست اور دہشتگرد افواج سے جوانومردی اور بہادری کے ساتھ ہر جبرو ستم سہنے کے ساتھ لڑتا ارہاہے۔
جس کی شروعات عرب، فارس، پرتگیز ہو یا انگریز سامراج ادوار سے شروع ہوکر اُن کی تشکیل کردہ نومولود پنجابی کالونی نام نہاد پاکستان کے خلاف جاری و جاری رہاہے۔ ۔جس میں کئی نامور بلوچ قومی جھدکاروں نے مزاحمت کرکے تاریخ میں سرخرو ہوئے ،جس میں بلوچ خواتین شاملِ عمل رہے ہیں۔ جس میں بانک بانڑی، گل بی بی، بیبو، کریمہ بلوچ اور کئی گمنام شیرزال بلوچاور بلوچ سیاسی ومزاحمت کار جنگجو جھدکار فرزندوں نے دشمنوں کے خلاف لڑتے لڑتے تاریخ میں اپنی بلوچیت کو آشکار کیا، اور آج ہم ان کی بدولت فغسے اپنے آپ کو بلوچ کہنے اور ثابت کرنے میں مخر کرتے ہیں۔
آج بانک مھرنگ بلوچ، بانک سمّی دین بلوچ، بانک ماہ زیب بلوچ ،بانک سیما بلوچ، بانک گُلزادی کے ساتھ ساتھ کئی شیر زال بیٹیاں اور بیٹے پیروکماش نوجوان ل سے لیکر ہر مکتب فکر آج کی اس پُرآشوب حالات میں دشمن کی ایوانوں کی دہلیز پر اس پرامن سیاسی لڑائی کو جاری رکھی ہوئی ہیں۔
اور اس مزاحمت کیلئے آج میں اور بلوچ قوم کے ساتھ دنیا کےتما م مظلوم ومحکوم قومیں لاکھوں سلام پیش کرتے ہوئے شیرزال نجمہ بلوچ کو جس نے شہید بھائی بالاچ جان کی لاشِ مبارک کو دفنانے سے انکار کرکے بلوچ قوم کو جگانے کیلے شہید فدا جان چوک کو ایک مرتبہ پھر سے روشن و رونق بنا کر خون کی سمندر کو پار کرتے ہوئے کہ اب بلوچ قوم آپنی لاشوں پر ماتم کرکے دفنایا نہیں کرتے۔ اس پیغام نے بلوچ قوم کی خاموشی کو ایک طوفان کی شکل میں نئی روح پھونک دی، اور شیرزال مھرنگ و شیرزال سمّّی دین ،ڈاکٹر شلی اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کی رہنمائی حاصل کرتے ہوئے شہید فدا جان چوک کی رونق کو وسعت دیکر شال، ڈیرہ غازی خان تونسہ، کوہلو کھان بارکھان سے لیکر پنجاپ کی تخت لاہور و اسلام آباد کی مردہ خانون تک بلوچ کی انقلابی آواز کو پہنچا دی۔ جس سے عالمی دنیا بھی اس طوفانی بلوچ کی آشوبی آواز کی حمایت کرنے پر مجبورہوا۔
میں بارہا یہ فخریہ انداز ۔میں کہتا ہوں ۔ کہ اس گلزمیں پر بالاچ جان اور بلوچ فرزندوں کی گرتی ہوئی سرخ لہو کو ایک انقلابی آواز یہی شیرزالوں نے دی، اسلئے یہ شیرزال تاریخ کے اساطیری کردار ہیں آج بلوچ قوم ان کو محبت بھری آنکھوں سے دیکھتی اور سُہنری لفظوں سے پکارتی اور لکھتی ہے، اور ان ہی کے مزاحمت نے بہرے گونگے و خاموش فضاؤں میں حقِ صدا کو بلند کی۔ کیچ کے طوفانی فضاؤں کو ایک پُررونق ریلی کی شکل میں لانگ مارچ کی شروعات کرتی ہوئی بلوچستان سے لیکر پنچاب اور پشتون کے سوئے ہوئے مردہ ضمیروں کو جھگانے کی تان لیکر ہر جگہ دورانِ اس آشوبی سفر میں گزرتے ہوئے اس لانگ مارچ کی استقبالیہ کے ساتھ قبضہ گیر ریاستی جبر و ستم کو تمام محکوم قوموں کو باور کرائی کہ اس کالونی ریاست میں ہم مظلوم و محکوم قوموں کی زندہ رہنا مشکل نہیں، بلکہ ناممکن
و غضب ہے۔
اسی طرح اس انقلابی لانگ مارچ نے بلوچ قوم کے علاوہ ہر مظالم و محکوم قوموں کو یکجہتی کی درس دیکر اپنی روشن مستقبل کی جدوجہد اور مزاحمت کی تلقین کی تاکہ جابر ریاست انسان کی جینے کی حقوق کو اپنی بندوق کی جابرانہ طاقت سے غضب نہ کر سکے۔ اب ہر محکوم قوموں کو بنگالی قوم سے سبق سیکھنا ہوگا اور اپنی انسانی و قومی حقوق چھینا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ چھینے گئے حقوق زبردستی سے واپس چھینا ہوگا ۔جس زبان سے ظالم ریاستیں بات کرتے ہیں، ہمیں بھی اس کی طاقتور زبان سے جواب دینا ہوگا۔
اب جب کہ بلوچ قوم نے ایک خونی تحریک کی شروعات کرکے منزل کی جانب رواں دواں ہے جس میں بلوچ خواتیں کی بہادر کرداروں نے نئی ڈھنگ دیکر ایک کامیاب انقلاب کی نوید دنیا کی سوئے ہوئےعالمی طاقتوں کو نیند سے جگا کر مظلوم اور محکوم بلوچ قومی آواز و تحریک کو سپورٹ کرنے پر مجبور کردیا ۔مجھے آج اس تحریک کی سرخیل شہید غلام محمد بلوچ کا وہ تقریر یاد آ رہا ہے جب شہید نے بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی انقلابی نظریہ سے تشبیہ دیکر کہا کہ ہمیں دوسرے قوتوں کی طرف اس وقت دیکھنا ہوگا جب ہم اپنی قوت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہونگے، اور عالمی قوتیں خود مجبور ہونگے ہماری طرف ہاتھ بٹھانے کو اپنی قومی مفاد سمجھتے ہوئے اور ہمیں سپورٹ کرنے کیلئے ہماری طرف ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہونگے۔
آج میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ وقت ہان پہنچا ہے، مگر ہمیں اب بھی مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید یکمشت ہونا ہے، اس سفر میں ہمیں مزید سخت سے سخت ترین حالات، جبر و ظلم کی مقابلہ اس جوانمردی سے کرنے ہونگے تاکہ ہمیں اپنوں کی لہو اور تکالیفوں کی ثمر ایک خوشخال مستقبل کی صورت میں مل کر ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی پُرسکون سے گزر سکے۔ اور اسلام آباد نے لانگ مارچ کو ثبوتاژ کرنے کیلئے بلوچ ماؤں و بہنون کے ساتھ جو ظلم و جبر کی رویہ، غیر مہذب ریاستی غنڈہ گردی کرکے یہ ثابت کردیا کہ اسلام آباد کے حکمرانوں کو بلوچ قوم کی پُرامن لانگ مارچ برداشت و ہضم نہیں ہوتی ہے۔
اب دنیا کو معلوم ہونا چائیے کہ پاکستان ایک دہشتگرد ریاست اور کس طرح بلوچ نسل کشی کی پالیسی کو اپنا کر بلوچستان پر قبضہ گیریت کو وسعت دے رہا ہے۔اب وقت آ پہنچا ہے کہ بلوچ قوم کو یکمشت و یکجہتی میں جبر و ظلم کو رکنا ہوگا، اور اپنی روشن مستقبل کیلئے مزاحمت کو وسعت دینا ہوگا۔۔۔ اور بلوچ قوم نے آج آپنی یکجہتی سے مفاد پرست پارلیمانی مداریون کے منہ پر کلگ لگاتے ہوئے ان کی مفادات کو ثبوتاژ کرکے ان کو پیغام دیا کہ آج بلوچ قوم باشعور ہیں آپنے قومی حقوق کیئلے مزاحمت پر نکل آئیے ہیں ۔آج مارنگ کی لانگ مارچ کی طوفانی موجین ان مفاداتی ٹولے کو بحر بلوچ میں پھینک کر بلوچستان کی دہلیز پر ان کی نام ونشان مٹا دیئگا۔۔