بلوچ نیشنل مومنٹ کے سابق جنرل سکریٹری اور بلوچ رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فام ایکس پر اپنے ایک پوسٹ کہاہے کہ بلوچ قوم کے خلاف قابض پاکستان ریاستی جبر و استبداد میں روز بہ روز تیزی لا رہی ہے۔ بلوچ فرزند دہائیوں سے جبری اٹھائے جارہے ہیں۔ لوگ دس دس ، پندرہ پندہ سالوں سے لاپتہ ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں متعدد بلوچ نوجوان، بالخصوص اسٹوڈنٹس کو نہ صرف کراچی اور پنجاب کے مختلف کیمپسز سے اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے بلکہ گوادر، کیچ، خضدار سمیت بلوچستان کے کونے کونے سے بھی بڑی تعداد میں اٹھا کر لاپتہ کئے جارہے ہیں۔ بلوچ طلباء سے کراچی اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ان کی قومیت، ڈومیسائل، زبان، کپڑوں اور کلچر کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انھیں ہر جگہ مخاصمانہ برتاؤ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ گزشتہ دنوں ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں ایک بڑا فوجی آپریشن کرکے بلوچوں کے گھروں، املاک اور مال مویشیوں کو بمباری میں تہس نہس کردیا گیا۔ کئی بلوچوں کو شہید کیا گیا اور لیویز ایس ایچ او سمیت تین درجن سے زائد بلوچ فرزندوں کو جبری اُٹھاکر لاپتہ کیا گیا۔
رحیم بلوچ نے کہاہے کہ بلوچ نہ صرف مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی ریاستی دھشتگردی کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ بلوچستان سے باہر، بالخصوص پنجاب، کراچی اور ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران میں بھی پاکستانی خفیہ ادارے بلوچوں کو قتل اور جبری لاپتہ کررہے ہیں۔ 19 جولائی 2024 کو بزرگ بلوچ رہنما استاد واحد کمبر کو ایران کے شہر کرمان سے پاکستانی خفیہ ایجنٹس نے اٹھا کر لاپتہ کیا جس کے بارے میں ابھی تک اس کے اہلخانہ کو کسی قسم کی معلومات اور ملاقات کی سہولت نہیں دی جارہی ہے۔ استاد واحد کمبر کے اغوا سے ایک ماہ قبل محمود لانگو کو افغانستان سے پاکستانی ایجنٹس نے اغوا کرکے لاپتہ کردیا۔ اس کی خاندان کو بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جارہا ہے۔
اب تو پاکستانی ریاست کو جبر و استبداد کی لت لگ گئی ہے اس کی آمریت اب فسطائیت کی صورت دھار لی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ پاکستان کے حالات ایسی ریاستوں سے بھی بدتر ہیں جن کیلئے ”بنانا ریپبلک“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی معاشی بد حالی، اوپر سے نیچے تک کرپشن، اژدھا کی طرح پُھن پیلائی ہوئی مذہبی انتہا پسندی و عدم رواداری، دہشتگردی اور فرقہ واریت قابو سے باہر ہوئے جارہی ہیں۔ پارلیمان، حکومت، عدلیہ اور میڈیا بری طرح سے فوج اور خفیہ اداروں کے شکنجے میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں فوج اور خفیہ اداروں کی آشیر واد کے بغیر شراکت اقتدار کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اسلئے سب جماعتیں فوج کا دلال بن گئے ہیں۔ جو نام نہاد سیاسی جماعتیں میثاق جمہوریت کے علمبردار تھے وہی جماعتیں بلوچ نسل کشی میں فوج کا ساتھ دینے کے بعد اب جمہوریت کی قبر کھود کر اسے دفنانے میں بھی فوج کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ہر طرف فسطائیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے ہیں۔ پہلے تو عام انتخابات کے نتائج کو بدلنے کیلئے دھونس، دھمکی، رشوت اور جعلی ووٹوں کا استعمال کیا جاتا تھا یا پھر ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی تھیں اب فوج اور خفیہ ادارے ہی ارکان پارلیمان کا چناؤ کرتے ہیں، نا پسندیدہ ارکان اور جماعتوں کی جیت کو ہار میں بدلتے ہیں اورحکومتیں تشکیل دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی بھی نام نہاد قانون یا بل کے حق میں ووٹ کیلئے ارکان پارلیمان یا ان کے اہلخانہ کو اغوا اور بلیک میل کرکے مجبور کیا جاتا ہے۔
ایڈوکیٹ نے کہاہے کہ سینیٹر محترمہ نسیمہ احسان گزشتہ روز سینیٹ اجلاس میں جس طرح گلو گیر لہجہ میں اپنی بے بسی اور اپنے اوپر دباؤ کا اظہار کر رہی تھی اور اس کی پارٹی اس کے گھر کے گھیراؤ اور بیٹے کے اغوا کی بات کررہی تھی اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مقبوضہ بلوچستان میں عام بلوچ کے ساتھ قابض پاکستانی فوج اور سکیورٹی ادارے کیا کیا ظلم نہیں کرتے ہونگے۔ حالانکہ محترمہ نسیمہ کا شوہر سید احسان شاہ مقبوضہ بلوچستان میں قابض پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کا ایک دیرینہ آلہ کار ہے۔ جس طرح اژدھا اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے بالکل اسی طرح قابض پاکستان بھی مقبوضہ بلوچستان میں چھوٹی سی نافرمانی پر اپنے آلہ کاروں اور سہولتکاروں کو ذلیل کر رہی ہے کیونکہ کالونائزر کیلئے مقبوضہ خطہ کا جغرافیہ، تزویراتی قدر اور وسائل کی اہمیت ہوتی ہے، وہاں کے باشندوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ بلوچ قوم کے پاس اپنی قومی شناخت، وقار اور زمانے کی رفتار سے ھم آہنگ ترقی کیلئے پاکستانی جبری قبضہ سے آزادی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔