بارکھان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی این ڈی پی کے آرگنائزر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہےکہ بلوچستان کو سنہ 1948 سے ایک کالونی کی طرح چلایا جا رہا ہے، جہاں کے وسائل سے پورا پاکستان چل رہا ہے مگر ان وسائل کے اصل مالکاں بلوچستان کی عوام پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کہنے اور لکھنے کو تو بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع ہے۔
ساحل و سائل سے مالا مال ہے، مگر انفراسٹکچر کے حوالے اتنی ہی تباہ ہے۔ انسانی معاشرتی زندگی کو سدھارنے کے لئے جن اداروں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تمام ادارے برائے نام رہ گئے ہیں۔ تعلیمی ادارے ہوں یا صحت سے منسلک ادارے، سینکڑوں کلومیٹر روڈ ترقی کے نام پر مزید تباہ کر دیئے گئے ہیں جس کی مثال بارکھان ٹو رکنی روڈ جس کی لمبائی صرف 52 کلومیٹر ہے مگر پچھلے کئی سالوں تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے مگر ابھی تک محض 15 کلومیٹر پر کچھ کام ہوا ہے۔
اس عدم تعمیرات کی وجہ سے صرف مسافر گاڑیوں کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے بلکہ یہاں کی دھول مٹی کی وجہ سے یہاں کے عوام مختلف بیماریوں سے دوچار ہو رہے ہیں۔ ایکسیڈنٹ روز کا معمول بن چکا ہے، مسافروں کی پریشانیاں اور تاخیر کی وجہ سے حادثات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مختلف حادثات میں اگر کوئی زخمی ہو جائے تو انہیں ہسپتال لے جانا فضول سمجھا جاتا ہے کیونکہ جس عمارت کو ہسپتال کہا جاتا ہے وہاں ڈاکٹروں کا نام و نشان موجود نہیں یے۔
پیرامیڈکس کے چند ٹرینی بغیر ادویات اور سازوسامان کے موجود ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ کسی غریب کو ایمرجنسی کی صورت میں علاج کی ضرورت پڑ جائے تو یہاں دو ایمبولینس تیار ہیں جو ڈیزل کا 10 ہزار کرایہ مانگتے ہیں جبکہ یہاں سے پرائیویٹ گاڑیاں 5 ہزار لے کر باآسانی ڈی جی خان پہنچا دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں کسی قسم کی جانی نقصان کو حادثاتی نہیں کہا جا سکتا بلکہ ان کا ذمہدار اور کوئی نہیں اس انفراسٹکچر کو تباہ کرنا والا حکمران اور انہیں عوام پر مسلط کرنے والے ریاستی نمائندے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ریاست اور عوام کے درمیان عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت عوام ٹیکس ادا کرتی ہے اور ریاست اس کے بدلے زندگی کی تمام بنیادی ضروریات کو پورا کرتی ہے مگر یہاں ایک طرف جبری الحاق نامے کی تاریخ بھی ہے،نیپ کے جمہوری حکومت کی برطرفی، دہائیوں کی آمریت، نصف صدی کے وسائل کی لوٹ مار، فوجی آپریشنز، انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں، جبری گمشدگیاں، اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت قبائلی تنازعات، زمینوں پر قبضہ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تسلط کو برقرار رکھنے جیسے سازشیں رچائی گئی ہیں اور یہاں کے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے سینکڑوں قسم کی مختلف ٹیکسز وصول کر کے بھی یہاں کا انفراسٹکچر پتھر کے زمانے کا منظر پیش کرتا ہے۔
آرگنائزر نے کہاکہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے ہے کہ قبائلی تنازعات جو ہم پر مسلط کر دی گئی ہے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر پہلے بھی این ڈی پی بارکھان زون نے بارہا مہم چلا کر آگاہی پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت ہمیں تقسیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آج کے پریس کانفرنس کے توسط سے ہم ایک دفعہ پھر یہ آگاہی پھیلانا چاہتے ہیں کہ قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے روز مرہ قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
اگر صحیح معنوں میں تحقیق کی جائے تو واضح نظر آئےگا کہ ریاست کی طرف سے قبائلی معاملات میں بہت زیادہ سہولت کاری کی جاتی ہے اس معاملے میں کسی بھی ایف آئی آر پر ریاستی آشیرباد یافتہ امیروں اور سرداروں کے کہنے پر کاروائیاں چلتی ہیں. بے گناہوں کو اذیت بھی دی جاتی ہے اور گناہ گار آزاد پھر رہے ہوتے ہیں جبکہ ایسے حالات میں ریاستی اداروں کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔ انہیں اس قدر بااختیار بنایا جا چکا ہے کہ اکثر قتل یا اس جیسے دوسرے معاملے سے سرزد ہونے والا
اشخاص کسی آشیرباد یافتہ قبائلی شخصیت کی پشت پناہ میں چلے جاتے ہیں جنکا پولیس، لیویز سمیت کوئی ادارہ نظر اٹھانے کی جرات نہیں کرتا مگر بات ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی نہیں ہوتی چونکہ یہ اختیار ریاستی امور چلانے والوں نے ہی عطا کئے ہوئے ہوتے ہیں۔
ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آج بلوچ عوام پر مختلف قسم کی جنگیں مسلط کر دی گئی ہیں، ریاستی جنگوں میں بھی نام نہاد قبائلیت کو استعمال کرتے ہوئے بلوچوں کو محاذآرائی کی جانب دکھیلا جا رہا ہے جس کے منفی اثرات سالوں تک صرف انہی کو بھگتنے پڑھیں گے اس لئے ضروری ہے کہ بلوچ با شعور ہو اور ایسے کسی تنازعے کے پیدا ہونے والے اصل محرکات کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے تا کہ اصل مسیحا اور جانی دشمن کی پہچان ہو سکے۔
پریس کانفرنس دورں کہاکہ آپ کو بھی ہماری طرف سے یہ درخواستانہ پیغام موصول ہو کہ یہاں پیش آنے والے ظلم و جبر کے خلاف صدا بلند کرنے والوں میں آپکو بھی صف اول کا کرداد ادا کرنا ہوگا۔یہاں کے مظلوم عوام کا سہارا بننا پڑھےگا۔ عوامی بہبود کے نام پر بنائے گئے تمام محکموں کی تباہی کے ذمہداروں کواحتساب کرنا ہوگا۔ ٹرانسفر پوسٹنگ سے لے کر کسی قسم کی رشوت خوری اور کرپشن کے پیچے چھپے ہاتھ آپکے سامنے عیاں ہیں ان ظالموں اور جابروں کے سامنے سرخم تسلیم کرنے کے بجائے سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا پڑھےگا جس کی ابتدا ہمارے دوستوں نے کردی ہے ۔
انھوں نے کہاکہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں بارکھان کے بلوچ عوام، اس معاشرے کی ترقی اورعوام کی فلاح و بہبود میں رکاوٹ کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے اور اس مزاحمت کا آغاز بارکھان ٹو رکنی روڈ کی عدم تعمیرات کے خلاف سیاسی تحریک سے کیا جائےگا۔ آپ کے ذریعے نام نہاد حکمرانوں کوخبردار کرتے ہیں کہ اس تعمیراتی کام کو جلد سے جلد تیزی کے ساتھ مکمل نہیں کیا گیا تو ان پیٹ پرست پارلیمانی نمائندوں اور انکے آقاؤں کے خلاف سراپا احتجاج ہوں گے ۔