
تحریر: دل مراد بلوچ
خان مہراب خان اور دیوان بچومل کی شہادت
تیرہ نومبر 1839 بلوچ تاریخ کا وہ دن ہے جس نے ایک ریاست کا زوال نہیں، بلکہ ایک قوم کا اخلاقی عروج ثبت کیا۔ قلات کی سرزمین پر مہراب خان نے تلوار کے ساتھ اپنی وفاداری کی آخری حق ادا کی مگر اسی مٹی پر ایک اور شخص بھی گرا تھا، دیوان بچومل، درباری وزیر، وہ بلوچ کے اکثریتی مذہب سے تعلق تو نہیں رکھتا تھا لیکن سرزمین کے لیے مرنا اپنا فریضہ سمجھا، وہ مہراب خان کے ساتھ مر کر زندہ ہوگیا، مگر بلوچ اجتماعی یاد میں دھیرے دھیرے مٹ گیا۔ کیوں مٹ گیا، اس لیے بچو مل کے بعد ہمیں غیرمسلم بلوچوں کے مزاحمتی کردار نظر نہیں آتے ہیں، درمیان میں دو سو سال گزر چکے ہیں۔ آج جب ہم مہراب خان کو یاد کرتے ہیں، تو بچومل کی یاد خاموشی میں کہیں پسِ منظر میں دَب جاتی ہے جیسے ہم نے اس کی قربانی نہیں، صرف اس کا مذہب یاد رکھا ہو۔
بلوچ اپنے سیکولرازم پر نازاں ہے۔ غیرمسلموں کو "اقلیت” نہیں کہتا بلکہ بلوچ کا درجہ دیتا ہے۔ بلوچستان کے تمام بڑے شہروں میں آج بھی ہندوؤں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ زبردستی مذہب کی تبدیلی کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ غیرمسلم بلوچوں کی تعداد، بالخصوص ہندو بلوچوں کی، غالباً لاکھوں میں ہے، پھر بھی بلوچ مزاحمتی تاریخ میں ایک دیوان بچّومل کو چھوڑ کر ہمیں کسی ایک غیرمسلم بلوچ کا حوالہ کیوں نہیں ملتا؟ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ آج تک ہندو بلوچ اس سرزمین کے ساتھ وہ جڑت پیدا نہیں کر سکا کہ وہ بلوچ مزاحمت کا عملی حصہ بن پاتا؟ کیا ہندو، ایک مسلمان بلوچ کے مقابلے میں انسانی طور پر (معذرت کہ سخت الفاظ استعمال کر رہا ہوں) کم بہادر، یا کم غیرت مند ہوتا ہے؟
سیٹھ ہولا رام کی دکان اور ایک روپے کا چنا
نوّے کی دہائی کے اوائل میں میں سریج گریشہ کے مڈل اسکول میں چھٹی، ساتویں جماعت میں تھا۔ تفریح یا آدھی چھٹی کے دوران ہم دوڑتے ہوئے سیٹھ ہولا رام کی دکان پر جاتے، ایک روپیہ کا چنا خریدتے اور مبالغہ نہیں، حقیقتاً ہمارا دن گزر جاتا۔ بچپنے میں ہم یہ فرق کرنے سے قاصر تھے کہ ہندو اور مسلمان بلوچ میں کیا فرق ہوتا ہے۔ گریشہ کافی دُور دراز علاقہ تھا، وہاں بھی ہندوؤں کے دو بڑے دکانیں تھیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ پورے علاقے کی "باقاعدہ” دکانیں یہی تھیں۔ یہ لوگ صدیوں سے دکانداری کرتے آئے تھے۔ میٹرک کے لیے نال چلا گیا۔ ہمارے نال میں ہندو بلوچوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ 1993–94 تک نال بازار میں مسلمانوں کی شاید دو یا تین دکانیں ہوں گی، باقی سارا کاروبار ہندو تاجروں کے ہاتھ میں تھا۔ نال، گروک، گریشہ، کودہ، کوڑاسک وغیرہ سمیت پورے علاقے کو ہندو تاجر راشن دیتے تھے۔ کیش یا نقدی اس وقت کم تھی، بدلے میں خریدار تاجر کو اجناس، پشم وغیرہ دیتا تھا۔ قرضہ کے لیے سونا گروی رکھنے کا رواج تھا۔ یہ صدیوں سے دستور تھا۔ آج تک کوئی ایک آدمی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہندو نے حساب میں گھپلا کیا ہو، البتہ بارگیننگ الگ بحث ہے۔
1994–95 میں میں گورنمنٹ ہائی اسکول نال میں میٹرک کر رہا تھا۔ کچھ ہندو اسٹوڈنٹس بھی کلاس فیلو تھے۔ مجھے کہیں بھی مذہبی بنیاد پر تفریق نظر نہیں آئی۔ پھر چلتے چلتے زمانہ آگے بڑھا، مشرف کے بعد بلوچستان میں پیسے کا ایک سیلاب آیا۔ زرعی اجناس کی قیمتیں بڑھیں، مسلمان بلوچ تاجروں نے نال بازار کا رخ کیا اور ایک چھوٹے سے بازار کو چند سال میں کئی سو فیصد بڑھا دیا، لیکن ہندوؤں کے کاروبار جمے جمائے تھے، انہیں کوئی بڑا دھچکا نہیں لگا، کاروبارِ زندگی چلتا رہا۔
سیٹھ جواری لال کا اغوا
سال 2009 کو ایک دن اچانک خبر آئی کہ سیٹھ جواری لال کو اغوا کیا گیا ہے۔ جواری لال، میرے کلاس فیلو سنتوش کمار کے بڑے بھائی اور سیٹھ ایسو مل کے بیٹے تھے۔ بہت ہی خوبصورت نوجوان تھا، جواری کی خوب صورتی دیکھ کر مجھے ہندوستانی فلمی ہیرو کی گمان گزرتا۔ اٹھانے والے کون تھے؟ مسلمان بلوچ۔ میر برکت محمد حسنی۔ اسی واقعے پر میر برکت محمد حسنی اور نال کے شہنشاہ سردار اسلم بزنجو کے تعلقات میں بھی نشیب و فراز آیا۔ بعد میں دونوں نے لے دے کر اپنے تعلقات بحال کیے، لیکن جواری لال آج تک لاپتہ ہے۔ اس خوبصورت نوجوان سیٹھ جواری لال کی ماں اور بہن آج بھی رو رہے ہیں۔
بلوچ مزاحمتی سرکل میں ہندو حیثیت
2013 کا سال تھا۔ ایک دن میں سورگر اوتاک میں تھا، اچانک جبری گمشدہ سیٹھ جواری لال یاد آیا تو وہاں موجود مغل مزاج کمانڈر سے پوچھا:
"یارا، جواری لال کا کچھ اتا پتہ نہیں چلا؟ اس کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔”
کمانڈر نے نہایت ہی نفرت انگیز اور بےپروا لہجے میں جواب دیا:
"امئے شہزادگیں سنگت جنگ بووگا انت، من گُم کرتہ بَقّال ءَ را۔”
ترجمہ: "روز ہمارے شہزادہ جیسے ساتھی مارے جا رہے ہیں، میں نے ہندو کو گم کر دیا۔”
جنگ میں ایک اہم منصب دار کا یہ رویہ اور ذہنیت دیکھ کر میں اندر سے کانپ سا گیا۔ ارے، بقال تو تیسرے، چوتھے درجے کا شہری ہے، بلوچ کی جنگی اوتاک میں میں نے اس کا نام کیوں لیا؟ باقی ساتھیوں کے رویے سے بھی ایسا تاثر ملا کہ مجھے اپنے سوال پر شرمندہ ہونا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ، جب مسلم بلوچ مارا یا اٹھایا جاتا ہے تو وہ "شہزادہ” ہوتا ہے، لیکن اسی دشمن کے ہاتھوں (میر برکت محمد حسنی تو شفیق مینگل کا دستِ راست اور ریاستی کرایہ دار تھا) اگر ہندو مارا یا اٹھایا جائے تو بیان یہ ہے کہ "من گُم کرتہ بقال ءَ را”۔
یہاں میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا جو وقت کے تھپیڑوں میں کہیں گم ہو گیا۔ سوال یہ تھا کہ 13 نومبر 1839 کو خان قلات کے سپاہ یا جان نثار ساتھیوں میں ایک غیرمسلم بلوچ دیوان (وزیر) بچّومل کا تذکرہ ملتا ہے، اس کے بعد آج تک کسی ایک ہندو کو توفیق کیوں نہیں ملی کہ وہ مزاحمت کا باقاعدہ ساتھی بنے؟ خضدار میں ایک گوپال تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ بابو نوروز کا ساتھی رہا، لیکن اگر اس دعوے کو درست بھی مان لیا جائے تو غالباً اس کی حد راشن یا دوا درمان پہنچانے تک رہی، اس سے آگے نہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں لگ بھگ ستر ہندو بلوچ مارے گئے، لیکن وہ بھی حملوں میں مارے گئے، جنگ میں نہیں۔
ہندو کی عدم شمولیت کا سوال اور ذہن کا شمشان گھاٹ
میری زخمی روح اس سوال کا جواب نہ دے پائی، اور مجھ میں کسی سے مزید پوچھنے کی ہمت نہ بن سکی۔ جواری لال کی جبری گمشدگی اور بلوچستان کے ہزاروں ہندوؤں کی جدوجہد میں عدم شرکت والا سوال ذہن کے شمشان گھاٹ میں جل مرا، خاک ہو گیا۔ لیکن یہ کیا، سوال ابھی زندہ ہے، نہ صرف زندہ ہے بلکہ جواب مانگ رہا ہے۔
میرا جواب
میں اپنے حصے کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں، اپنے حصے کی ذمہ داری آپ پر چھوڑتا ہوں، کہ آپ اپنے دل سے کیا جواب سنتے ہیں۔ بلوچستان صرف مسلمان بلوچوں کا نہیں۔ اس میں ہندو بلوچ، سکھ بلوچ، عیسائی بلوچ اور کسی حد تک پارسی بلوچ بھی ہیں۔ تو پھر وجہ کیا ہے کہ بلوچ قومی تحریک سیکولر ہونے کے باوجود مذہبی لحاظ سے یک قطبی ہے؟
بلوچستان کے ہندو آج بھی عملاً بلوچ شناخت سے محروم ہیں۔ مثال کے طور پر: "نال سے ہندو تاجر جواری لال اغوا”، "خضدار میں ہندو تاجر چندر لال سے بھتہ وصول” لیکن جب کسی مسلمان بلوچ پر بات آتی ہے تو معاملہ "رفیق بلوچ اغوا” اور "سیٹھ شکیل سے بھتہ” کے طور پر سامنے آتا ہے۔ واقعہ اور واردات دونوں ایک ہیں، مگر شناخت کے باب میں جواری لال کے نام کے ساتھ ہندو کا سابقہ لگ جاتا ہے، جبکہ مسلمان بلوچ اپنے نام کے ساتھ خودبخود شناخت ہو جاتا ہے۔
ہندو بلوچ یا بلوچستان کے باشندے
بلوچ قوم اپنے آپ کو صدیوں سے سیکولر، روادار اور منصف مزاج کہتی ہے۔ یہ فخر بجا ہے کہ بلوچستان کے شہروں اور بستیوں میں آج بھی ہندو، سکھ اور دیگر غیرمسلم بلا خوف و خطر آباد ہیں۔ زبردستی مذہب تبدیلی یا جبری شادی جیسی رسوائی یہاں کا قصہ نہیں ملتا، مگر سوال یہ ہے کہ اگر بلوچ واقعی اتنا ہی غیرمتعصب ہے، تو پھر بلوچ مزاحمت کی تاریخ میں دیوان بچومل کے بعد کوئی دوسرا غیرمسلم بلوچ کیوں نہیں ملتا؟
کیا غیرمسلم بلوچوں نے خود کو الگ رکھا یا ہم نے انہیں غیرمحسوس دیوار کے پیچھے دھکیل دیا؟ کیا وہ بلوچ قوم کے حصہ ہیں یا صرف بلوچستان کے باشندے؟ کیا ہماری رواداری نے انہیں تحفظ دیا یا خاموش لاتعلقی میں قید کر دیا؟ دیوان بچومل کی شہادت کے بعد دو صدیاں گزر گئیں، بلوچ مزاحمت کا فخر صرف تلوار اٹھانے میں نہیں، بلکہ اُن سب کو ساتھ کھڑا کرنے میں ہے جو انصاف اور انسانی وقار پر یقین رکھتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی عقیدے، رنگ یا ذات سے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم دیوان بچومل کو تاریخ سے بطور بلوچ نکال کر صرف ایک “غیرمسلم وزیر” کے طور پر یاد رکھتے ہیں تو ہم مہراب خان کی قربانی کا آدھا مفہوم کھو چکے ہیں۔
ہندوؤں کے خلاف پاکستانی جرائم
جب پاکستان نے بلوچ تحریک کو کچلنے کا آغاز کیا تو خضدار خاص نشانے پر تھا۔ یہاں مسلمان بلوچ پر قیامت ٹوٹی تو ہندو بلوچ کو بھی استثنا حاصل نہ رہا۔ ایک طرف شفیق کا گینگ سرگرم تھا، دوسری جانب سردار ثناءاللہ زہری۔ ہندو بچیوں کو اٹھانے کے معاملے میں شفیق گینگ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن سردار ثناءاللہ کے بیٹے اور بھتیجے وغیرہ نہ صرف ہندو بلوچوں سے بڑی رقم بطور بھتہ لیتے تھے بلکہ ہندو بچیوں کو گھروں سے اٹھاتے، کئی دن تک ریپ کرتے اور پھر نیم مردہ حالت میں ہندو محلے کی گلیوں میں پھینک جاتے۔
سیٹھ جانی رام سردار ثنااللہ کی دربار میں
ہندوؤں کے ساتھ ظلم و حیوانیت پیہم برقرار تھا، اس ذلت سے تنگ آکر ہندو بلوچ سیٹھ جانی رام ایک وفد لے کر انجیرہ زہری میں سردار ثنااللہ کے دربار میں پہنچا اور کہا کہ "کچھ بات کرنا ہے”۔
ثناءاللہ نے مجلس کو اشارہ کیا کہ آپ لوگ نکل جائیں، میں اکیلے ہندوؤں سے بات کروں گا، لیکن سیٹھ جانی رام نے کہا:
"نہیں سردار، ہماری عام سی باتیں ہیں، سب کے سامنے ہوں گی۔”
ثناءاللہ نے پوچھا: "کہیے، آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟”
سیٹھ جانی رام نے جواب دیا:
"آپ اور آپ کے آبا و اجداد کے ساتھ ہم صدیوں سے اسی سرزمین پر رہ رہے ہیں۔ آپ اور آپ کے آباؤ اجداد کے اخراجات سے لے کر آج آپ کے الیکشن سمیت دیگر اخراجات ہم ہندوؤں نے برداشت کیے ہیں۔ ہم آپ جیسے غیرت مند انسان ہیں۔ آج سے پہلے کسی نے ہماری عزت و آبرو اور جان و مال پر حملہ نہیں کیا، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ آپ کے بیٹے اور نائبین ہماری خواتین اور بچیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، ریپ کرتے ہیں اور نیم مردہ حالت میں پھینک جاتے ہیں۔”
ایک نام نہاد غیرت مند، نام نہاد جنگجو بلوچ سردار کو یہ سن کر آگ بگولہ ہو جانا چاہیے تھا اور کہنا چاہیے تھا کہ "یہ میرے لوگوں کے کام نہیں، میں خود اس کا حساب لوں گا” لیکن ثناءاللہ کا ردعمل کچھ اور تھا۔ وہ آگ بگولہ تو ہوا، مگر جواب یہ دیا:
"یہ میرے لوگوں کے کام نہیں، یہ بی ایس او آزاد والے ہیں، تم ناحق میرے نائبین پر الزام لگا رہے ہو، شرم کرو”
سیٹھ جانی رام نے دھیرج سے جواب دیا:
"سردار صاحب، غصہ پی لیں۔ بی ایس او کے لڑکے ہمارے بچے ہیں، ہماری نظروں کے سامنے جوان ہوئے ہیں، ایک ایک کو جانتے ہیں۔ وہ یا تو ہڑتال کا کال دینے آتے ہیں، دروازے پر اسٹیکر چپکاتے ہیں یا کبھی کبھار چندہ لیتے ہیں۔ انہوں نے آج تک ہماری ایک بسکٹ کا ڈبہ تک نقصان نہیں کیا۔” اس کے بعد سیٹھ جی نے ایک ایک کا نام لے کر بتایا کہ یہ آپ کا بیٹا، یہ بھتیجا اور یہ وہ افراد ہیں جو ان جرائم میں شامل ہیں۔
اتفاق سے اس وقت بی این ایم کا ایک ساتھی بھی موجود تھا۔ اس کے مطابق، سردار ثناءاللہ شرم سے پانی پانی ہو گیا، اور اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا۔ دوست کے مطابق، وفد نے آگے کہا:
"آج ہم اپنی دکھڑا سنانے نہیں بلکہ اس لیے آئے ہیں کہ ہمیں ساتھ قتل کردیں اور اس کے بعد ہماری آبرو کے ساتھ جو چاہیں کھیلیں، ہم یہ ذلت برداشت نہیں کرسکتے۔” سردار کے پاس پھر بھی کچھ کہنے کو نہیں تھا۔ وفد اٹھ کر چلا گیا اور بعد میں ڈی سی آفس کے سامنے ایک پریس کانفرنس میں یہی باتیں دہرائیں۔
بلوچ رواج اور غیرمسلم بلوچ
بلوچ روایتی ضابطوں میں غیر بلوچ یا غیرمسلم کے لیے ہمیں “برابری” کا درجہ کم اور "مہمان” یا "باہوٹ” کا تصور زیادہ نظر آتا ہے۔ برابر کا شریک شاید بہت کم۔ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں مسلمانوں نے غیرمسلموں کی جائیداد لوٹنے اور ان پر حملے شروع کیے، جس سے دونوں طرف مذہبی فسادات پھوٹ پڑے۔ لاکھوں انسان مارے گئے، عزت و آبرو لوٹی گئیں۔ لیکن انہی دنوں، وسیع جغرافیہ پر پھیلے بلوچستان میں ہمیں کسی ایک بھی غیرمسلم بلوچ کو حراساں کرنے کا حوالہ نہیں ملتا، کیونکہ بلوچ سماجی بُنت (fabric) میں غیرمسلم کا تحفظ عقیدے سے ماورا ایک اخلاقی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔
سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ "عدمِ تعصب” کی روایت بلوچستان کو آج بھی پاکستان کے دوسرے خطوں سے ممتاز بناتی ہے، لیکن یہ "برابری” نہیں، بلکہ تحفظ اور رواداری ہے۔ ہندو تاجر، سکھ یا پارسی کاریگر بلوچستان میں صدیوں تک نسبتاً امن اور عزت کے ساتھ رہے۔ ایک دو شہروں کو چھوڑ کر، ہندو بلوچستان کے اکثر شہروں میں آج بھی آباد ہیں۔
پاکستانی ریاست اور مذہبی پولرائزیشن
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان نے "اسلامی قومیت” کو ریاستی شناخت کے طور پر مسلط کیا۔ ایک جانب جمہوریت کا ڈھونگ ہے کہ ہر شہری کو ووٹ دینے، نمائندہ چننے اور نمائندگی حاصل کرنے کا حق ہے، دوسری جانب یہ شرط ہے کہ ریاست کا سربراہ غیرمسلم نہیں ہو سکتا۔ یعنی جمہوریت بھی غیرمسلم کو برابر کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس رجحان سے پنجاب اور سندھ میں مذہبی پولرائزیشن کا سیلاب آیا، مگر بلوچستان میں اثر نسبتاً کم رہا۔ وجہ یہ تھی کہ بلوچستان کی سماجی بنیاد قبائلی اور قومی شعور پر استوار تھی اور اب نیشنلزم بلوچ قومی رگ و ریشے میں پھیل رہا ہے۔ مذہب بطور ادارہ یہاں طاقت کا اصل مرکز نہیں بن سکا، بلوچ قوم پرستانہ سیاست نے ہمیشہ قوم کو مذہب پر مقدم رکھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں سندھ و پنجاپ کی طرح زبردستی مذہب تبدیلی، مندر سوزی یا عیسائی بستیوں پر منظم یا اجتماعی حملے نہیں ملتے۔
آئیے اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں
لیکن محض اس بنیاد پر کہ غیرمسلموں کے ساتھ کھلے ظلم کا ریکارڈ کم ہے یا یہ کہ وہ پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ باعزت طریقے سے رہ رہے ہیں (اگرچہ 2005–06 کے بعد یہ صورتحال بھی بگڑی ہے) بلوچستان کو "مثالی سماج” قرار دینا درست نہیں۔ تنقیدی طور پر دیکھا جائے تو بلوچستان میں غیرمسلموں کے ساتھ براہِ راست منظم ظلم کم ہوا ہے، مگر "سماجی حاشیہ بندی” (social exclusion) اپنی جگہ موجود ہے۔ وہ کل بھی حاشیے پر تھے، آج بھی حاشیے پر ہیں۔ غیرمسلم بلوچ، خاص طور پر ہندو، تجارتی یا پیشہ ورانہ طبقے تک محدود ہیں۔ سیاسی، فکری یا ادبی نمائندگی میں ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ مذہب کے نام پر جبر نہیں، مگر خاموش لاتعلقی اپنی انتہا پر ہے۔ قوم پرست بیانیے میں غیرمسلم بلوچ کی شمولیت کا تصور اخلاقی سطح پر تو ہے، معاشی یعنی چندے کی حد تک بعض جگہ موجود بھی ہے لیکن عملی اور برابری کی سطح پر بالکل نہیں۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ جب پاکستانی ریاست کے جبر کا بیانیہ پیش کیا جاتا ہے تو بلوچ مصنفین اور کارکنوں کی تحریروں میں غیرمسلم بلوچوں کے تجربات بہت کم جگہ پاتے ہیں حالانکہ وہ اسی مٹی کے باسی ہیں اور ان کے ساتھ بھی وہی ظلم ہوتا ہے جو ایک مسلمان بلوچ کے ساتھ ہوتا ہے، صرف شکل مختلف ہوتی ہے۔ اغوا برائے تاوان سے لے کر ہندو بچیوں کے اغوا اور ریپ تک، ہندو بلوچ بھی بہت کچھ سہہ رہا ہے۔
بنیادی سوال
کہا جاتا ہے اور کچھ حد تک درست بھی ہے کہ رواداری کے معاملے میں بلوچ معاشرے کو ہمسایہ خطوں پر برتری حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس بنیاد پر ہم خود کو "مثالی سیکولر سماج” کہہ سکتے ہیں؟ اگر تھوڑی سی خود احتسابی سے کام لیں تو کچھ بنیادی سوال سامنے آتے ہیں:
پہلا سوال یہ کہ دیوان بچّومل کے علاوہ باقی ہندو بلوچ کم بہادر یا کم غیرت مند (خاکم بدہن) ہیں؟
دوسرا یہ کہ کیا غیرمسلم بلوچ آج خود کو "بلوچ قوم” یا "بلوچ قومی وحدت” کا برابر کا حصہ سمجھتے ہیں؟
تیسرا یہ کہ کیا ان کی زبان، ثقافت اور عقائد کے لیے بلوچ سیاسی و فکری حلقوں میں "ذمی” نہیں برابری کی بنیاد پر عملی جگہ موجود ہے، یا صرف اخلاقی جملے اور بیانات ہیں؟
چوتھا یہ کہ کیا بلوچ قومی تحریک نے کبھی یہ ضرورت محسوس کی کہ ہندو بلوچ ہمارے سماج کا ایک بڑا اور مستقل حصہ ہیں، اس لیے انہیں شعوری طور پر اپنی صفوں میں شامل کیا جائے؟
اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو صاحبو، ہماری سیکولرازم ابھی طفلی سطح پر ہے۔ ہم بزعمِ خود ہندو کے محافظ تو ہیں، اس کے کندھے نہیں۔ ہم نے ہندو کو "امن” تو دیا ہے، برابری نہیں۔ جیسے کل تک بلوچ مرد، بلوچ عورت کا محافظ تھا اور آج بھی ہے، مگر اسے برابر کا ساتھی ماننے پر تیار نہیں تھا، ویسے ہی ہم غیرمسلم بلوچ کے ساتھ کھڑے ضرور ہیں، مگر اسے اپنے ساتھ کھڑا نہیں کرتے۔
بلوچ سیکولرازم
ہماری سیکولرازم ابھی تک سماج کے تمام طبقات، بشمول غیرمسلم بلوچ یعنی ہندوؤں، کے لیے غیرشمولیت اور خاموش فاصلے کو پوری طرح پار نہیں کر سکی۔ یہ دراصل اُس تاریخی، سماجی، نفسیاتی اور معاشرتی ساختیات کی گتھیاں ہیں جنہیں آج کم از کم سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس کے سبب ایک خطہ، جس نے مذہبی ہم آہنگی کو اپنا فخر بنایا، وہاں غیرمسلم بلوچ مزاحمت میں محض تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔
ہم لاکھ دعویٰ کریں اپنی مذہبی رواداری پر، اپنے طرزِ معاشرت پر، لیکن دیوان بچّومل کی مثال بہرحال ایک استثناء ہی رہے گی، قاعدہ نہیں۔ مذہب سے بالاتر بلوچ کے حصے میں تاریخی جڑت کا فقدان رہا ہے۔ اگرچہ قومی تحریک میں واضح طور پر مذہبی تعصب یا امتیاز موجود نہیں، لیکن معاشرتی سطح پر تقسیم بہرحال موجود ہے۔ ہندو بلوچ اس سرزمین پر بیشتر وقت تجارتی یا مالیاتی طبقے سے وابستہ رہا ہے۔ آج بھی اس کے لیے بہی کھاتہ طے ہے، بندوق نہیں۔ مسلمان بلوچ سماج اپنے "جنگجویانہ تمدن” پر فخر کرتا ہے، اس میں تاجر طبقہ۔ بالخصوص ہندو، کبھی مرکزِ عزت نہیں بن سکا۔ اس طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو بلوچ کی شناخت معاشی بقا سے جڑی رہی، سیاسی مزاحمت سے نہیں اور میں نے کم از کم اپنے گردونواح میں کسی کو اس تضاد پر سنجیدگی سے سوچتے یا بات کرتے نہیں دیکھا۔
مزاحمت میں ہندو کی عدم شرکت اور بلوچ تنظیموں کا کردار
بی ایس او، بی این ایم یا اس سے پہلے کی سیاسی و مزاحمتی تنظیموں نے، اگر غیر جانب دار ہو کر دیکھا جائے، تو ہندو بلوچ سے زیادہ تر چندہ لیا ہے، اسے یہ احساس دلانے کی کوشش بہت کم کی ہے کہ وہ بھی اس قومی مزاحمت کا برابر کا حصہ بن سکتا ہے۔ جس طرح پارلیمانی حلقہ بندیوں کی وقتی مفاداتی سیاست نے بلوچ قوم کے سب سے بڑے شہری بلوچ آبادی، یعنی کراچی کے بلوچ کو قومی سیاست میں آہستہ آہستہ ایک کونے میں دھکیل دیا، کچھ ایسا ہی معاملہ ہندو بلوچ کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ معاشی ٹول تو رہا، سیاسی اور مزاحمتی رفیق نہیں۔ آج بلوچ سرزمین ہندو کے لیے تجارت کا ذریعہ اور جائے رہائش تو ہے، شناخت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ فرق نفرت سے پیدا نہیں ہوا، نہ کسی براہِ راست نفرت انگیز امتیاز سے بلکہ ایک خاموش، مگر تلخ عصبیت کے طویل ارتقا کا نتیجہ ہے جو بدقسمتی سے دونوں جانب قائم ہے۔ اس سے بڑی تلخ حقیقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلمان بلوچ نے ہندو بلوچ کو ایک بے ضرر برادری کے طور پر تو قبول کیا، مگر برابر اور مزاحمتی ساتھی کے طور پر نہیں مانا۔
ہندو کا نقصان
نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو بلوچ نے بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں "مزاحمت اور شہادت” کے تصور کے بجائے "معاشی استحکام” کو ترجیح دی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ خود بھی اندر ہی اندر یہ یقین کرچکا ہے کہ وہ دوسرے درجے کا شہری ہے اور شاید کبھی بھی مزاحمت کے عظیم تجربات اور خوابوں کا شریک نہیں بن سکتا۔
آج تحریک وسعت پا چکی ہے۔ بلوچ کے اکثر طبقات کی نمائندگی موجود ہے لیکن اس وسعت کے باوجود غیرمسلم بلوچ، بالخصوص ہندو بلوچ سیاسی و مزاحمتی بیانیے سے غائب ہے۔ اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ بلوچ قومی تحریک نے اپنی وسعت کے باوجود کبھی غیرمسلم بلوچوں کو معاشی کمک کے علاوہ دیگر محاذوں پر سنجیدگی سے شریک نہیں کیا۔ اگرچہ تحریک کی تشکیل اور نظم میں مذہب مسئلہ نہیں مگر ہندو بلوچ کی وجود حتیٰ کہ آواز بھی نظر نہیں آتی ہے۔
اگر بلوچ قومی تحریک واقعی سیکولرازم کے بےرحم معیار پر پورا اترنے کی کوشش کرے، تو شاید آنے والے کل میں ہندو بلوچ بھی اُس صف میں کھڑا نظر آئے جس میں آج صرف ایک دیوان بچّومل کی پرچھائی باقی ہے اور بس۔
ختم شد
نوٹ: یہ موضوع میرے لیے نہایت اہم ہے، کوئی بھی مہربان انبکس میں اغلاط کی نشاندہی یا معلومات میں اضافہ کرے تو اس میں شکریے کے ساتھ ترمیم و اضافہ کروں گا۔ دل مراد🙏🏻
