یومء سیاہ یا یومء تکبیر؟۔تحریر; گُل جان سیاپاد

28 مئی 1998 سہ پہر 3 بجے راسکوہ بلوچستان کے سینے کو لہولہان کر کے ڈسپوزیبل ایٹمی آزمائش کرکے بلوچستان لرز اٹھا جب دوسرے دن سکول میں آئے تو مہروان ماسٹر صاحب نے اشک بار آنکھوں سے گلو گیر ہوکر مخاطب ہوئے کہا کل کی زمین لرزش کس کس کو محسوس ہوئ حقیقت میں مجھے پتہ نہیں چلا تھا تو کچھ دوستوں نے گواہئ دی کہ ہمیں محسوس ہوا ہے۔

میں نے اپنے قریبی دوست سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا تو سر جی نے کہا بیٹا میں آپ لوگوں کو بتا دوں گا کہ کیا ہوا تھا ۔

مہروان ماسٹر صاحب نے کہا حقیقت کو دیکھا جائے یہ ہمارے نسلوں کی بربادی ہے پاکستان نے بلوچستان کو آزمائش گاہ بنایا ہے اور ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لیے ہمارے محترم استاد نے تفصیل سے ہمیں بتایا کہ آنے والے 10 سالوں میں بیانک قسم کے بیماریاں جنم لیں گے اور ہمارے اپنے لوگ ملی نغمہ کے دھن میں سرور ہیں ۔ میں نے دل کو زور دیتے ہوئے سر سے سوال کیا کہ ابھی ہم اس نقصانات کے باوجود کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

سر نے میرے راسکوئی لہجے میں منہ اور زبان کینچ کر کہا ((دیم سیاہ ہ ہ شہ مچان زیادہ شمارا نقصان بوت شمے دیم سیاہ بوت )))
کلاس میں ایک قہقہہ اٹھی اور مہروان سر نے بات کو آگےبڑھاتے ہوئے کہا بیٹھا آپ لوگوں کے جنت نظیر باغات پوڈر بن جائینگے جن کجھور کے درختوں کو آپ ناز سے دیکھتے ہو دس سال کے بعد یہ صرف داستانوں میں نظر آئیں گے۔

28 مئی 1999 کو سکولوں میں چھٹی دے کر سب خاران کو ہندو محلہ سکول میں جمع ہونے کو کہا گیا تو سارے خاران وہاں جمع ہو گئ پہلی بار یوم تکبیر منانے والے راسکوہ کے دامن پاکستان کی جھنڈا گاڑنے کی تیاری میں میر عبدالکریم نوشیروانی صاحب کہ روز اول سے بلوچستان کی غلامی میں بر سر پیکار تھے تہ ہنوز جاری ہے۔

خیر تقریر شروع ہوئ ساونڈ وغیرہ نہیں تھا ایک سپیکر منہ میں کرتے پاکستان کی ترقی کی بات کر رہے تھے کہ اچانک ایک بگدڑ مچ گئ شور ہوئی میں بہت قریب تھا مرد مجاہد اللّٰہ پاک اس کی روح کو شاد کریں (((شربت جمالی)) نے یوم تکبیر کے خلاف ایک پلئے کارڈ بنایا تھا اور مجمعے میں آکر مردہ باد کے نعرے لگائے ۔

مجھے سر جی کی داستان یاد آگئی۔ جو ایک سال پہلے ہم سے بیان کر چکا تھا شربت خان جمالی کے ساتھ میں بھی مردہ باد کرتا رہا چیختا رہا لیکن میر عبدالکریم کے سیاست روز اول سے کچھ لنڈ اور لوفرون کی سیاست تھی سارے چیلے آس پاس کھڑے تھے ۔

تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے راسکوہ کے مالک راسکوہ کے فرزند میر ممتاز سیاپاد نے شربت خان کو دبوچ لیا اور منہ کوبند کر اٹھا لیا اور لے کر کلاس روم کے کمرے میں بند کرلیا خاران کے ناسرپد عوام میر صاحب اور یوم تکبیر کیلئے تالیاں بجا رہے تھے۔
اگر آج کوئی راسکوہ کا دورہ کرے تو مہروان ماسٹر صاحب کی باتیں پتھر پر لکیر کی مانند درست ثابت ہوگئے ہیں۔۔۔ ہمارے جنّت نظیر سرزمین پر اب باغات نظر نہیں آتے، جنگلی جانور اور چرند پرند ناپید ہوچکے ہیں، سورج سوا نیزے پر آکر جسم کو جھلسا دیتا ہے، بچے معذور پیدا ہوتے ہیں، کینسر کا ریشو اتنا بڑھ گیا ہے کہ ھم اپنی جنّت میں جانے کو خوف کھاتے ہیں۔۔۔ لیکن پھر بھی آج تک بہت سے ناسرپد راسکوہ کے سینے پر لگی داغ کو زریعہ نجات سمجھ رہے ہیں، بہت سے لوگ 28 مئی کو شادیانے بجاتے ہیں۔۔۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ راسکوہ کے فرزندوں نے مادر وطن کے سینے پر لگے زخم کو کبھی اپنایا نہیں ہے بلکہ اس زخم کو اپنی پیشانی پر داغ سمجھ کر اس غلامی کے خلاف برسرپیکار ہوئے ہیں۔۔۔ جس طرح نواب حبیب اللہ خان نوشیروانی کے خلاف راسکوہ کے سرمچاروں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا تھا اسی طرح آج بھی راسکوہ کے فرزند شہید نثار میرل اور شہید صدام کے ڈی کے نقش قدم پر چل کر استعماری قوتوں کے خلاف بر سرپیکار ہے۔

تاریخ ہمیشہ سرزمین کے حقیقی فرزندوں کو امر کردیتی ہے جس کی واضح مثال شہید نثار میرل اور صدام کے ڈی کی ہے جن کو راسکوہ کے فرزند اپنا ہیرو مانکر انہیں اپنا مشعل راہ سمجھتے ہیں۔

آج اگر انسانیت کی بات نہ ہوتی تو خاران سے جگر، کینسر ،اور مختلف لاعلاج بیماریوں کیلئے تالیاں بجانے والے 28مئ 1999 کو اگر شربت خان جمالی کے آواز میں آواز بنتے یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

ایک دن دو نظریے۔تحریر - سمو بلوچ

منگل مئی 28 , 2024
28 مئی 1998 وہ دن ہے جو تاریخ میں دو طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے یاد کیے جانے کہ وجہ ایک ہے لیکن نظریے دو۔ ایک حاکم کا نظریہ اور دوسری محکوم کا نظریہ۔ حاکم (ریاست پاکستان ) اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے یاد […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ