جیسے کہ آپ کو معلوم ہے کہ دکی میں اس وقت بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے متحرک ہے گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے دکی میں بلوچستان سے پنجاب جانے والے کوئلے سے لوڈ ٹرکوں پر نامعلوم افراد نے حملہ کرکے ٹرکوں کو نذر آتش کردیا جبکہ فائرنگ کی تبادلہ سے ایک ٹرک ڈرائیور ہلاک اور تین ڈائیور زخمی ہوگئے تھے بعد ازاں بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے دکی کے علاقے سنجاوی پاسرہ تنگی کے قریب بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں ملوث ٹرکوں کو نشانہ بنانے کی تصدیق کرتے ہوئے واقعہ کی زمہ داری قبول کرلی۔

یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس قبل بھی ان علاقوں میں کوئلے کے ٹرکوں کو نذر آتش کرنے جیسے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن کی زمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں قبول کرتے رہے ہیں، ان واقعات کی روک تھام کے لیے قبائلی اور آمن فورس تشکیل دی گئی مگر ابتر حالات کی وجہ سے وہ بھی راتوں رات بھاگ گئے،، سوال یہ بھی بنتا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت آرمی، ایف سی، لیویز، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز امن و امان کے نام پر کروڑوں روپے پٹور رہے ہیں پھر کیوں ایک ناکام قبائلی اور آمن فورس کے قیام کی ضرورت پڑی ؟
اس بات سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا کہ ریاست نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے سادہ لوح لوگوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے، چمالنگ کوئلہ اس کی ذندہ مثال ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں سادہ لوح مریوں کو انتہائی کم معاوضہ پر سیکورٹی گارڈ بھرتی کرایا گیا طے یہ تھا کہ چمالنگ کوئلہ کامیاب ہونے پر ان سیکورٹی گارڈوں پکا کرکے دوگناہ تنخواہ دیا جائے گا،، اسی دوران مختلف دھماکوں اور واقعات میں سینکڑوں غریب مری ہلاک اور اپاہچ ہوئے ہیں جبکہ اس کوئلہ کی مفاد سامراجی قوتوں نے اٹھائیں ہیں،، چمالنگ کوئلہ کے مد میں آج بھی کرنل، جنرل، میر، نواب وغیرہ کے کروڑوں کے کاروبار پر چل رہے ہیں جبکہ چمالنگ تعلیم پروگرام کے تحت ان کے بچوں ملکی اعلٰی تعلیم اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ اسی کوئلہ کی تحفظ کے لیے اپاہچ ہونے والے سیکورٹی گارڈ کے آٹھ ہزار پر کسی میر یا کرنل کی نظر ہے۔
اسی دوہرا معیار کو اپناتے ہوئے ریاست نے ایک بار پھر سے دکی کوئلہ کی حفاظت کے لئے قبائلی اور آمن فورس تشکیل دیا چونکہ اب حالات اس کے برعکس ہیں، لوگوں کے اندر شعور بیدار ہوچکا ہے جس کی وجہ سے یہ فورس بروقت ناکارہ ہوا ۔
اب ریاست کے پاس بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے علاؤہ کوئی دیگر راستہ نہیں تھا اور باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریاست بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ دکی کوئلہ پر معاہدے کے لیے تیار ہے، لیکن بی ایل اے جو بلوچستان کی آزادی اور بلوچ سرزمین کے وسائل کی تحفظ کے دعویدار ہے، وہ ریاست کے ساتھ معاہدہ کرے گی ؟ ، یہ بی ایل اے کے ساکھ کا معاملہ ہے کیونکہ ماضی میں سرداروں پر بلوچستان کے وسائل پر سودے بازی کے الزامات لگ چکے ہیں۔