معزز بلوچ قوم!
جیسے کہ آپ بلوچ قوم کے علم میں ہوگا کہ گزشتہ دو مہینوں سے بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان کے کونے کونے سے ہوکر اسلام آباد تک بلوچستان میں ریاستی مظالم کے خلاف لانگ مارچ کا انعقاد کر چکی ہے۔ لانگ مارچ کی حمایت میں بلوچستان کے ہر کونے سے ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ یقینا اسی بلوچ قوم کی حمایت اور مدد کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین اور ریاستی بربریت کے شکار بلوچ ماؤں اور بہنوں کو یہ قوت عطا ہوئی ہے کہ انہوں نے گزشتہ دو مہینوں تک اس شدید سردی میں بلوچستان کے ہر علاقے سے گزر کر ہزاروں کلومیٹر طے کرکے اسلام آباد گئے۔
اسلام آباد پہنچتے ہی جس طرح بلوچ ماؤں اور بہنوں کی تذلیل کی گئی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ جس طرح بلوچ ماؤں بہنوں اور بچوں کو لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا گیا جس طرح انہیں تشدد کرکے جیلوں میں ڈالا گیا اور پھر جس طرح گزشتہ ایک مہینے سے وہاں پر لوگوں کو تنگ کیا گیا اور انہیں جس تذلیل سے گزرنا پڑا وہ سب کے آنکھوں کے سامنے ہوتا آرہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ آج بلوچستان میں بلوچ قوم کو جس طرح کی تذلیل اور بربریت کا سامنا ہے یہ سب اسلام آباد کی ایما پر ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود بلوچ ماؤں اور بہنوں نے اپنی آس اور امید نہیں چھوڑی اور اسلام آباد کا رخ کیا تاکہ انہیں انصاف ملیں اور اسلام آباد میں موجود تمام اداروں کے سامنے بلوچستان کی دردناک حقیقت واضح ہو جائیں لیکن جس رویے اور تشدد کا سامنا بلوچ قوم کا اسلام آباد میں سامنا ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ جاری بربریت میں اسلام آباد کے اداروں کی بھرپور شمولیت موجود ہے۔
ایک پرامن مارچ جس میں چند نہتے بچے اور سینکڑوں خواتین شامل تھے جو پہلے سے ہی ریاستی بربریت کے شکار ہیں انہیں دشمنوں جیسے رویے سے گزارا گیا اور ان پر واضح کیا گیا کہ اس ملک میں بلوچوں کیلئے کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی موجودگی اور اسلام آباد پریس کلب میں ہزاروں صحافیوں کے سامنے جو کچھ ہوا اور اس پر انہوں نے جس طرح کی خاموشی اپنائے رکھی وہ تاریخ کے لحموں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
معزز بلوچ راج!
اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے کہ اسلام آباد میں بلوچ قوم کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا اور ریاست کے تمام ادارے بلوچوں کو نفرت اور حقارت سے دیکھتے ہیں اس رویے اور نفرت کو لیکر بلوچ ماؤں اور بہنوں نے اسلام آباد سے شال آنے کا فیصلہ کر لیا ہے جہاں 27 جنوری کو جلسہ عام ہوگا۔ اس جلسہ عام سے بلوچ تحریک سے ریاست کو واضح پیغام پہنچنا چاہیے کہ بلوچ راج اب مزید ریاستی تشدد اور بربریت پر مبنی پالیسیوں کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرے گا۔
جس طرح اسلام آباد میں غیروں کی طرح بیٹھے ہوئے بلوچ ماؤں اور بہنوں کو بلوچستان کے کونے کونے سے نکل کر آپ نے ہمت اور قوت فراہم کیا اسی جذبے کے ساتھ شال میں ہونے والے جلسہ میں شرکت کرتے ہوئے ریاست کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ بلوچ راج بلوچستان میں جاری ریاست کی غیر انسانی پالیسیوں کو بھرپور طریقے سے مذمت کرتا ہے اور ان کے خلاف اپنی پرامن جدوجہد کو ہر صورت جاری رکھا جائےگا۔ ان دو مہینوں کی تحریک نے کسی نہ کسی طرح بلوچستان میں ریاست کی جنگی جنونیت کو کنٹرول رکھا ہو ا ہے۔
جس طرح لانگ مارچ کی تحریک سے ہفتے پہلے ریاست نے بلوچستان کے کونے کونے میں 10 نوجوانوں کی لاشیں پھینک دی تھی اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو آج نجانے بلوچستان میں کتنے ماؤں کو بالاچ کی طرح ان کی لاش تحفے میں ملتی۔ ہم اپنی عوامی طاقت اور اتحاد سے ہی ریاست سمیت دنیا پر واضح کر سکتے ہیں کہ بلوچ قوم ایک زندہ قوم ہے اور وہ ریاست کے ان جنگی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتا اور وہ ریاست کے ان جابرانہ پالیسیوں کے خلاف اپنی عوامی طاقت کا سہارہ لیتے ہوئے دنیا پر واضح کرناچاہتا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت ریاست کیا کر رہی ہے۔
ہماری جدوجہد اپنی زندگیوں کی حفاظت کیلئے ہے اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں جدوجہد کا سہارہ لیتے ہوئے اپنی آواز بھرپور طریقے سے بلند کرنا چاہیے۔ یہی ایک طریقہ ہے جہاں ہم اپنے لوگوں کو ریاست کی جنگی جنونیت سے محفوظ کر سکتے ہیں۔
بلوچ قوم!
اب اس حقیقت سے آنکھیں چھپانا ممکن نہیں رہا کہ ریاست بلوچستان میں مخصوص لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اب یہ حقیقت ہم سب کے سامنے کھل چکی ہے کہ ریاست ہماری قومی شناخت یعنی بلوچ شناخت کی بنیاد پر ہمیں نشانہ بنا رہی ہے اور اس ظلم کا خاتمہ اس وقت ممکن ہے جب بلوچ قوم ریاست کے ان مظالم کے خلاف بطور قوم کھڑا رہے گا۔ ہمیں بلوچستان میں جاری اس تحریک کو مزید منظم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہماری بقاء کا ضامن ممکن ہے۔
اگر ہم نے تحریک سے روگردانی کی اور تحریک سے جڑے رہنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی تو وہ دن دور نہیں جب آپ کے گھروں میں بھی ریاست ماتم مچائے گی اور پھر پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اس لیے بطور قوم ہمیں اس بربریت اور ظلم و تشدد کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں ہمیں مزید منظم ہوکر سیاسی جدوجہد کا حصہ بننا چاہیے۔
جب تک ہم اپنی قومی طاقت اور قوت کی بنیاد پر ریاست اور دنیا پر یہ واضح نہیں کرتے کہ بلوچ راج ریاست کے ان مظالم سے تنگ آ چکا ہے اور وہ اپنی بقا کی حفاظت چاہتی ہے اس وقت تک ریاست بلوچستان بھر میں اسی طرح قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ ہمیں قومی اتحاد کو بڑھاتے ہوئے اور اس کو منظم کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری تحریک کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ 27 جنوری کو ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کرتے ہوئے اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ بلوچستان سے کسی بھی بے گناہ شخص کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ نہ بنایا جا سکیں۔