بلوچ اور سندھی الگ الگ قومیں ہیں، لیکن عملی طور پر وہ بھائی ہیں۔ سندھی اور بلوچ کا درد ایک جیسا ہے، بلوچ اور سندھی کا دشمن ایک ہے، بلوچ اور سندھی کی بیماری ایک جیسی ہے اور اس کا علاج بھی ایک جیسا ہے۔
آج کا پروگرام 1839 کے شہداء کی یاد میں منعقد کیا گیا ہے جنھوں نے میر مہراب خان کی قیادت میں لڑائی کی۔ اس موقع پر میں بلوچ شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنھوں نے اپنے خون کی آبیاری کرکے آئندہ نسلوں کے لیے آزادی کی شمع روشن کی۔
بلوچستان کو 1839 میں فتح کیا گیا اور سندھ کو 1843 میں۔ پہلے ہم سفید فام انگریزوں کے غلام تھے اور اب کالے انگریزوں کے غلام ہیں۔ ہماری جدوجہد ایک جیسی ہے۔ اس راہ پر ہم روزانہ لاپتہ افراد کی لاشیں وصول کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایک بڑی فوجی کارروائی جاری ہے جبکہ سندھ میں بھی ایک خاموش کارروائی ہو رہی ہے۔
اس جدوجہد میں بے شمار کارکنان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور اب کچھ سالوں سے یہ نسل کشی تیز ہو گئی ہے کیونکہ اب سندھی بھی بلوچوں کی طرح مزاحمت کر رہے ہیں۔
ریاست پاکستان نے بشیر قریشی کو شہید کیا، ڈاکٹر صفدر سرکی پر تین بار حملہ کیا گیا۔ سندھ کی قومی تحریک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس ہال کو ریاستی مظالم کی مذمت کرنی چاہیے۔
سندھ میں روزانہ کسی نہ کسی ضلع سے ایک سیاسی کارکن کو فورسز اغوا کر لیتی ہے اور پاکستانی فورسز جيے سندھ کے کارکنان کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ماضی میں انھیں اغوا کر کے تشدد کے مراکز میں رکھا جاتا تھا، لیکن اب سیاسی کارکنوں کو اغوا کر کے 24 گھنٹوں کے اندر شہید کر دیا جاتا ہے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرائی قربان کہاوڑ، روپلو چولایانی اور دیگر قومی مرکزی کارکنان کو سانگھڑ کے قریب زندہ جلا دیا گیا۔ جبکہ مظفر بھٹو کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سڑک پر پھینک کر شہید کر دیا گیا۔
ہم سندھی اور بلوچ شہداء کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ہم شہید بشیر قریشی اور شہید بالاچ مری دونوں کو یکساں احترام دیتے ہیں۔ہمارے شہداء آپ کے ہیں اور آپ کے شہداء ہمارے ہیں۔ہمیں آپس میں بات کرنی چاہیے اور آزادی کی جدوجہد کے لیے ایک اتحاد بنانا چاہیے۔ہمیں اپنی جدوجہد کو تیز کرنا چاہیے۔
اس موقع پر میں تمام بلوچ شہداء کو یاد کرتا ہوں، خاص طور پر شہید غلام محمد بلوچ کو، جن کے ہمارے بڑوں کے ساتھ روابط تھے۔ وہ ایک بہترین عالم اور سیاسی رہنما تھے۔اس وقت بلوچستان میں بیس ہزار سے زائد اور سندھ میں لاتعداد سیاسی کارکنان جبری لاپتہ ہیں۔
اہم بلوچ رہنما استاد واحد کمبر کو جبری لاپتا کیا گیا ہے اور سندھ سے سہیل بھٹی بھی پندرہ سال سے لاپتا ہیں۔ ہم تمام سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، گلگتی اور کشمیری سیاسی لاپتا افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس موقع پر، میں بطور چیئرمین جیئے سندھ فریڈم موومنٹ، اپنے قومی رہنماؤں سائیں جی ایم سید، نواب خیر بخش مری، اور باچا خان کو یاد کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتا ہوں کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سندھو دیش، آزاد بلوچستان، اور پختونستان کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ جنگ فتح تک۔