پاکستان، مانجھی فقیر کو اپنے تمبورا کے ساتھ جینے دیں، اُس کے لیے سُر ہی اُس کا ایشور ہے، کوئی چاہ نہیں، طلب نہیں، نہ دنیا کی لالچ، نہ نام و نمود کی ہوس۔ بس وہ سندھ کا درد گاتا ہے۔ اگر مانجھی نے تمبورا "پگھلا” کر اس کی کلہاڑی بنائی، قسم دھرتی ماتا کی، یہ کلہاڑی تیری گردن کاٹ دے گی۔”
گزشتہ چند دنوں میں بڑے واقعات رونما ہوئے (براہ راست ریاستی کارروائیاں شامل نہیں ہیں): بلوچستان میں ایک بلوچ سیاسی کارکن کی تقریر کے چند الفاظ کو جواز بنا کر کافری اور مسلمانی کے سرٹیفکیٹ بانٹے گئے۔ تاک میں بیٹھے مولوی نے اس موقع کو خوب استعمال کیا۔ اسی بلوچستان میں توہینِ مذہب کے نام پر ایک گرفتار ملزم کو پولیس اہلکار نے لاک اپ میں سرکاری بندوق سے قتل کر دیا۔ قاتل کو ہیرو قرار دیا گیا اور بوڑھے، لاچار پشتون مقتول کو گناہگار ٹھہرایا گیا۔ اس واقعے پر جتنی مزاحمت اور مذمت کی ضرورت تھی، بلوچ اور بالخصوص پشتون سماج اس میں ناکام رہا۔
سندھ میں ایک نام نہاد فیس بک پوسٹ کی بنیاد پر ایک ‘زومبی’ نے ایک انسان کو قتل کیا، لاش کی بے حرمتی کی اور اسے جلا ڈالا۔
اس دوران ایک تصویر وائرل ہوئی، جس میں بظاہر آسودہ و خوشحالی دکھنے والی جوان سال لڑکی، ایک غریب شخص کے پسینے سے شرابور ہاتھ کو بوسہ دے رہی ہے۔ جب معلوم کیا تو اس تصویر کا پس منظر اسی مقتول انسان کی کہانی ہے، جسے قتل کیا گیا، لاش کی بے حرمتی کی گئی اور مقامی قبرستان میں دفن سے انکار کر دیا گیا۔ قاتل اور جنونی اس پر بھی نہیں رکے، بلکہ لاش کو جلا دیا لیکن اسی تصویر میں نظر آنے والے بنیاد پرستوں کی نظر میں "نیچ ملیچ” پریمو کوہلی نے لاش کی حرمت بچائی، ٹکڑے چن کر انہیں دفنا دیا۔
سندھی سماج نے "پریمو سے پریم” کی لازوال مثال قائم کی۔ گھانگرو نے ہاتھ چومے، مانجھی نے تمبورا اٹھا کر موسیقی کو جنونیت کے خلاف ڈھال بنایا، اور جنونیوں کے خوف میں مبتلا زمین زادوں کو للکارا، پکارا، ہمت دی اور ٹوٹے حوصلے جوڑے، مانجھی نے جنونیت کے خلاف آگ لگادی، مانجھی نے درد ہی دوا بنادی۔(کاش بلوچ سماج کی نصیب میں ایک آدھ مانجھی لکھی ہوتی)
انہی دنوں لاہور میں ختمِ نبوت کانفرنس ہوئی، جہاں مولوی نے دین کے نام پر انسانی سماج میں بگاڑ اور جنونیت پیدا کرنے کے لیے خطرناک زبان کا استعمال کیا۔ کوئی تنقیدی جائزہ، کوئی سوال اٹھانے کی جرات نہیں۔ نہ کوئی مولوی سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ منبر (اسٹیج) پر کس قوت کی خوشنودی یا مفاد کے لیے قتل و قتال کا اجازت نامہ بانٹ رہے ہیں؟ آپ اس حد تک کیوں سماج دشمن بن چکے ہیں؟ یا انسانوں کو اندھی تقلید کے پیچھے کیوں پاگل بنا رہے ہیں؟
یہ لب ولہجہ، یہ مسائل محض مولوی کی ذہنی اختراع یا دینی جوش و ولولہ نہیں، بلکہ ان ‘معاملات’ کے پیچھے سیاسی مقاصد چھپے ہوئے ہیں۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے کی تقاضے اور ضروریات ہیں، جنہیں مذہب کی لبادے میں چھپایا جا رہا ہے، تاکہ عام عوام معروضی حقائق سے بیگانہ ہو جائیں، قوم و وطن کے درد سے ناواقف رہیں اور جارح و قاتل نوآبادیاتی نظام پر سوال اٹھانے کی ہمت بھی نہ کریں، یا پھر اس مقام تک پہنچ ہی نہ سکیں۔
اسی دوران ایک اور "مستند” مولوی کا آڈیو سامنے آیا، جس میں موصوف بڑی ذمہ داری کے ساتھ فتویٰ دیتے ہیں کہ "وہیں قتل کرو”۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے آڈیو یا ویڈیو ترمیم شدہ ہو سکتے ہیں اور یہ اسلام دشمن عناصر کی سازش ہے، جو دین اور دیندار طبقے کو بدنام کرنے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ مان لیا، لیکن جو اسٹیج پر بول رہا ہے، جو قاتل کو ہار پہنا رہا ہے، جو قاتل کو عقبی دنیا کے انعامات و نوازشات کی خوشخبری دینے کے علاوہ اسی دنیا میں نقد انعام و اکرام بھی دے رہا ہے، یہ سب کیا ہے؟
جواب میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ عام لوگ دین کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ استحقاق صرف مولوی کے پاس ہے اور اپنی استحقاق کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔
سوشل میڈیا المیہ
سوشل میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ ہم اسکرین پر صرف ویڈیوز دیکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ نہ کوئی تجزیہ ہوتا ہے، نہ کوئی تحریری ریکارڈ۔ ویڈیو یا آڈیو کے اثرات ان کی نوعیت کے حساب سے مختصر یا دیرپا ہو سکتے ہیں، لیکن جب یہی باتیں تحریر کی صورت میں سامنے آتی ہیں تو اصل معاملہ گہرائی تک سمجھ آتا ہے۔ تحریر نہ صرف ریکارڈ کا کام دیتی ہے بلکہ یہ ایک فکری عمل کو جنم دیتی ہے، جو کسی ویڈیو کی وقتی جذباتی شدت سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ ویڈیو ایک لمحاتی ردعمل پیدا کرتی ہے، جبکہ تحریر ایک مستقل سوچ اور تجزیے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
سوشل میڈیا کی فوری "نوعیت” نے ہمیں سوچنے کے عمل سے دور کر دیا ہے۔(بلوچ کا ایک فیکٹر یہی کر رہا ہے)، ہم پانچ سات انچ کی سکرین پر مواد کو دیکھتے ہیں، اپنے من مرضی کے مطابق کوئی ایک "ایموجی” کی صورت فوراً ردعمل دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ "جی میں نے اپنا فرض پورا کردیا” اور آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن تحریر ہمیں ٹھہرنے، سوچنے اور مسائل کی گہرائی میں اترنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم صرف ویڈیوز اور آڈیوز تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنے نہ صرف خیالات کو جہاں تک ہوسکے، تحریر میں منتقل کریں تاکہ سماج میں اصل تبدیلی ممکن ہو سکے بلکہ کوشش ہو کہ مخالف فریق باتیں تحریر کی صورت پڑھیں اور ان جائزہ لیں۔
کیا ہم "وائرل زدہ” سماج بن رہے ہیں ؟
آج کی سوشل میڈیا کی دنیا عجب ہے، بے حد عجب۔ کوئی بات، واقعہ، یا تصویر وائرل ہوتی ہے تو سب کی نظر اور توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ ردعمل اس بات کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ مذمت کرنی ہے، حمایت کرنی ہے، یا مدد کرنی ہے۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اس وائرل زدگی کو "وائرل انفیکشن” کہنا شاید بے جا نہ ہوگا، جو چند دن یا ہفتوں تک جاری رہتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے۔
اگرچہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونا بذات خود بری بات نہیں، لیکن کسی سماج بالخصوص ہمار غلامانہ سماج کے لیے صرف "وائرل دورانیہ” میں کسی موضوع یا مسئلے پر توجہ دینا اور پھر بھول جانا انتہائی خطرناک ہے۔ مثلاً جب ایک بلوچ ملا نے محض ایک جملے کو جواز بنا کر ہنگامہ برپا کیا، وہ وائرل ہوا، اور اس پر زبردست ردعمل سامنے آیا، اچھی بات ہے۔ لیکن کیا "وائرل دورانیہ” کے اختتام کے ساتھ ملا اور ریاست نے بھی اپنا "کام” وہیں ختم کر دیا؟
اسی طرح کوئٹہ میں ریاستی قیدی ریاست کے ہاتھوں قتل ہوا، جس پر مذمت اور مزاحمت ہوئی، لیکن کیا "وائرل دورانیہ” کے خاتمے کے ساتھ ریاست نے بھی اپنی قاتلانہ روش ختم کر دی؟ کیا اب اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں؟ ایسے ہزاروں معاملات ہیں جو وائرل ہوتے ہیں، عارضی توجہ پاتے ہیں، اور پھر گم، گمنامی کے اندھیروں میں چلے جاتے ہیں۔
ایک بنیادی سوال
سوال یہ ہے کہ کیا ایسے واقعات اچانک رونما ہوتے ہیں؟ کیا یہ محض انفرادی واقعات ہیں، اور کیا ان کا ذمہ دار صرف وہ فرد (قاتل) ہے یا پورا سماج؟ اگر صرف ‘فرد’ قاتل ہے تو مسئلہ ختم سمجھا جائے گا (جو کہ قطعی طور پر درست نہیں)، لیکن اگر ذمہ دار سماج ہے تو کیا ہمارے سماج میں اچانک جنونی پیدا ہو گئے ہیں؟ یا پھر تاریخی طور پر ہمارا سماج ہمیشہ سے متشدد اور جنونی رہا ہے؟
سماج کی تشکیل کون کرتا ہے اور کن عناصر سے ہوتی ہے؟ لوگ جنونی کیوں بنتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ‘اچانک’ پیدا نہیں ہوتی۔ چھوٹی سے چھوٹی حتیٰ کہ انسانی آنکھوں سے نظر نہ آنے والی خورد بینی بیکٹریا تک اچانک پیدا نہیں ہوتے، ان کے پیچھے بھی ارتقائی عوامل ہوتے ہیں، ایک انسانی آنکھ سے نہ دِکھنے والی بیکٹریا اچانک کسی غیبی قوت سے پیدا نہیں ہوتی تو آج ہماری سماج میں ایسی حیوانیت، جنونیت اور وحشت ناکی کیونکر اچانک جنم لے چکا ہے، میری رائے میں یہ تمام واقعات اور حادثات ہماری ارتقاء اور ارتقائی مراحل پر اثرانداز ہونے والے عوامل کا نتیجہ ہیں۔
ارتقاء صرف وقت گزرنے کا نام نہیں ہے۔ فطرت اور قدرت کے دیگر مظاہر تو اپنے مخصوص اجزائے ترکیبی سے متاثر ہو کر ارتقاء پذیر ہوتے ہیں، لیکن انسانی سماج کا ارتقاء انسان کے اپنے اقوال، افعال، اور اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لہٰذا، کسی بھی رونما ہونے والے واقعے کو ہم تاریخ اور تاریخ کو متاثر کرنے والے انسانی اقوال، افعال، اور اعمال سے بلا جھجھک جوڑ سکتے ہیں۔
ہماری آج کی سماج میں جنونیت اور تشدد کوئی نیا مظہر نہیں، بلکہ یہ ماضی کے سیاسی اور سماجی عوامل کی ایک طویل تاریخ کا حصہ ہے۔ جب ہم انفرادی قاتل کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، تو ہم اس وسیع نوآبادیاتی نظام کو نظرانداز کرتے ہیں جس نے اس تشدد کو جنم دیا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جنونی یا متشدد عناصر کی پیدائش محض اچانک نہیں ہوتی، بلکہ ایک دیرینہ سیاسی، سماجی، اور مذہبی عمل کے ذریعے ان کی ذہنیت کی تعمیر ہوتی ہے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ان عوامل کا گہری نظر سے جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ کون سے عناصر سماج کو جنونی بنا رہے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف ماضی کے طرز عمل اور روایات کا نتیجہ ہے بلکہ جدید دور میں طاقت کے مراکز کی جانب سے دانستہ طور پر جنونی اور متشدد ذہنیت کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو حقیقت سے دور رکھا جا سکے۔
جب یہ تصویر وائرل ہوئی، تو مجھ ناچیز کو اس میں قدیم سے عصرِ حاضر کا سندھ مجسم نظر آیا۔ راجہ داہر کے سندھ سے لے کر آج کے زخمی سندھ تک، ایسا لگا کہ صدیوں کی تاریخ اس ایک تصویر میں سمٹ آئی ہو۔ یہ تصویر نہ صرف ایک لمحہ تھی، بلکہ ایک تاریخی علامت تھی.