مہردات

مہردات : تحریر: مہرہس بلوچ سرما جب بہار سے بغلگیر ہوتا ہے، تو موسم دل لبھادینے والا ہوتا ہے، ایسے میں آسمان پہ باد ل چھائے ہوں اور بادل ہلکی ہلکی برسنے بھی لگے تو مٹی کی مہک سے فضائیں کچھ ایسی جھوم اٹھتی ہیں جیسے ابھی ابھی ’’مَے کدے‘‘ کا زینہ اتر چکے ہوں۔۔۔ ہاں! موسم کی دلبرائی میں چار چاند لگ جاتا ہے۔ اور اگر یہ موسم چلتن کے دامن میں ہو، پھر تو اس کے سحر سے نکلنا پنوں کا سسی کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔

مغربی سمت چاندنی پوشاک اوڑھے ایستادہ چلتن، مشرق میں دشت کا منظر، اس کے قدرے مغرب میں کوہ مہردار جس کے دامن میں آج بھی حانی کا تخت اس کی شان کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے اور شمال میں تکتو آذہان کی مانند شال کی حفاطت پہ مامورجس کا دبدبہ دشمن کے حوصلے پست کردے۔۔۔ پھر فضاؤں کا جھوم اٹھنا فرض بن جاتا ہے۔۔۔ کیوں نہ ہو۔۔۔ کہ صنوبر اوڑھے زرغون کی نگاہوں کا محور بھی تو شال ہی ہے۔

ایسے ہی دل افروز موسم اور دل کش مناظر میں بائیس سالہ نوجوان مہردات چہرے پہ ہلکی سی مسکان لیے، دنیا جہاں سے بے خبر موسمِ شال کو دل وماغ میں سمائے چلتن کے دامن میں بیٹھا ہے۔

یہ اس کا مشغلہ ہے شاید، کہ وہ اکثر ایسی جگہوں پہ آیا کرتا ہے، کبھی تنہا تو کبھی دوستوں کے ساتھ۔۔۔ لیکن آج وہ تنہا جنت نظیرکی زیارت کرنے نکلا۔ تنہائی کے باوجود بھی وہ مسرور ہے کہ کل اس کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا دن ہے ۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینا اس کے بچپن کا خواب تھا اور اب اس حسین خواب کی تعبیر فقط ایک دن کی دوری پہ ہے۔ وہ خود سے ہمکلام ہوا کہ اے مہردات جب تم ماسٹرز کی ڈگری حاصل کروگے تو کوئی اچھی نوکری تلاش کرنا تاکہ مستقبل کوفت زدہ نہ ہو۔ یا پھر یوں کرنا کہ سکالرشپ کے لیے کوشش کرنا تاکہ بیرونی دنیا کے سفر کا شوق بھی پورا ہو اور مزید تعلیم کا موقع بھی میسرآجائے۔۔۔ ہاں یہ اچھا رہے گا، ممکن ہے کہ اس کے بعد بیرون ملک روزگار کا بندوبست ہوجائے۔۔۔ اور اگر ایسا ہوا پھر تو زندگی کی ہر نعمت میسر ہوگی۔

وہ اکثر ایسے ہی تصوراتی دنیا میں کھوجاتا تھا۔ شاید اسے ایسے خیالوں سے سکون ملتا تھا کہ ازاں بعد مسکراہٹ اس کے چہرے پہ نمودارہوتا۔ دن ڈھلنے کے ساتھ۔۔۔ مہردات بادل نخواستہ ان حسین مناظر کو چھوڑ کر واپسی کی تیاری کرلی اور خودکلامی کرتے ہوئے کہا کہ چل مہردات آج کے لیے اتنا ہی کافی ، زندگی نے ساتھ دیا تو قدرت کے ان حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے پھر آئیں گے۔ کبھی کبھار اسے یہ گمان بھی گزرتا تھا کہ آیا جو میں سوچتاہوں یا جو میرا تصور ہے۔۔۔ ایسا ممکن بھی ہے؟ کبھی اطمینان کا اظہار کرتا تو کبھی ابہامی کیفیت سے دوچار بھی ہوتا۔ اور جب ذہن گنجلک ہوجاتا تو کہتا کہ کچھ بھی نا ممکن نہیں، بس محنت اور ہمت کی ضرورت ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ جو میں سوچتا ہوں وہ میں کرسکتا ہوں۔

۲۳ مارچ ۲۰۰۹: یونیورسٹی کا پہلا دن ، مہردات کو اتنی جلدی تھی کہ صبح ۸:۰۰ یعنی کلاس شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل ہی منزل پہ پہنچ گیا۔ ڈیپارٹمنٹ کا چکر لگایا لیکن وہاں تو ہُو کا عالم تھا ۔ اس نے کہا موقع سے فائدہ اٹھا کر یونیورسٹی کا عکس آنکھوں میں بسالیتاہوں اور یوں اس نے پوری آرٹس اور سائنس فیکلٹی کی طواف کیا لیکن اب بھی کلاس شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا لہذا وقت گزاری کے لیے کچھ دیر یوں ہی ٹہلتا رہا۔ تا آنکہ کلاس کا وقت بھی سر پہ آں پہنچا۔ مہردات نے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا تھا، اس دیپارٹمنٹ میں داخلہ بھی اس کی خواہش نہیں تھی بلکہ کالج کے چند ایک دوستوں کے اسرار پر اس نے یہ مضمون چُن لیا تھا۔ وگرنا اس کا دل فلسفہ پڑھنے کے لیے ہمہ وقت مچلتا رہتا تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ کلاس روم تک پہنچ گیا۔ وہاں پندرہ کے قریب طالب علم موجود تھے، اس نے بھی جاکے خالی نشست سنبھالی۔ آہستہ آہستہ طلبا آتے رہے اور کچھ ہی دیر بعد چالیس کے پیٹی کے ایک خوش وضع پروفیسر نے ڈائز سنبھالتے ہوئے کہا کہ میں تم لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے والے دو سال وقت ضائع کیے بغیر تم لوگ اپنی تعلیم پہ مکمل توجہ صرف کروگے۔ پہلا دن تھا اور آج کا دن کوئی خاص نہیں رہا، استاتذہ آتے رہے اور نصیحتیں ہوتی رہیں، فقط ایک ہی استاد تھا جس نے وقت ضائع کیے بغیر مضمون کو ہی زیرِ بحث لایا۔ آج کے دن یہی چالیس منٹ تھے جس میں بوریت محسوس نہیں ہوئی وگرنہ تو دوگھنٹے وعظ و نصیحت میں ہی گزرگئے۔ جب تمام کلاسیں ختم ہوگئیں تو مہردات کالج کے دو دوستوں حمل اور نودبندگ کے ساتھ کینٹین کی جانب چل پڑا۔ مہردات نے کہا کہ دوستوں جو کچھ کالج میں دیکھ رہا تھا یہاں بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔ یعنی یہ یونیورسٹی کم چھاونی کا عکس زیادہ پیش کررہا ہے۔ اب بھلا ایسے ماحول میں کوئی تعلیم پہ کیسے توجہ مرکوز رکھ سکتا ہے؟ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وجہ کیا ہے کہ ریاست اپنے فوجیوں کو چھاﺅنی کی جگہ تعلیمی اداروں میں تعینات کررہی ہے۔

حمل نے کہا کہ گلیوں اور سڑکوں سے لیکر کھیل کے میدان بھی انہی وردی والوں کے قبضے میں ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ایسے ماحول میں سماج میں بسنے والوں کی کیا حالت ہوگی۔۔۔ مہردات تمہاری طرح مجھے بھی سمجھ نہیں آرہا کہ یہ تماشا آخر کیوں؟ جبکہ پنجاب میں تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان کی موجود گی دور کی بات وہاں تو کسی چورائے پہ کوئی فوجی نظر ہی نہیں آتا، یہ سب کچھ ہم فقط بلوچستان میں دیکھتے ہیں جہاں وہ ہمیں ایسے گھورتے رہتے ہیں کہ شاید ہم کسی اور سیارے سے آئے ہوئے لوگ ہوں۔ نودبندگ نے کہا کہ یار چھوڑو! یہ نوآبادیاتی نظام ہے اور اس کے داﺅ پیچ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔

حمل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ نود بندگ یہ نظام اور وہ بھی نوآبادیاتی طرز کا؟ نودبندگ نے کہا کہ ہاں نا۔۔۔ جب تم کسی کے زیرِ دست بنوگے تو پھر یہی طرزِ حاکمیت پروان چڑھتا رہے گا۔ اور ایسی صورتحال میں لوگ مزاحمت پہ اترآئیں گے، جب لوگ مزاحمت کریں گے جیسے ہمارے لوگ اس ریاست کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں، ایسے میں دشمن بھی حرکت کرے گی نا، اور یہ فوجی نقل و حمل اس استحصالی نظام کو دوام بخشنے کے لیے ہی تو ہے، جس کے خلاف ہمارے لوگ متحرک ہیں جو اس ریاست کے وجود کو اپنی قوم لیے اجتماعی موت تصور کرتے ہیں۔

مہردات سوال کیا کہ اجتماعی موت لیکن وہ کیسے؟ نودبندگ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ لمبی کہانی ہے پھر کسی دن سناﺅں گا، یوں کینٹین میں بیٹھ کر ایک نشست میں یہ کہانی مکمل ہی نہیں ہوسکتی۔ حمل نے معنی طلب نگاہوں سے نودبندگ کو گھورنا شروع کیا۔۔۔ نودبندگ نے کہا کہ حمل ابھی چلو اور گھورنا بند کرو!۔ میں جانتا ہوں کہ یہ جوقصہ چل رہا ہے اس کا پسِ منظر کیا ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

بلوچی ادب پر حملہ

اتوار فروری 9 , 2025
عزیز سنگھورزرمبش اردو بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں "بلوچی ادب” سے منسلک ایک علم دوست اور قلم کار نوجوان اللہ داد بلوچ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ یہ واقعہ چار فروری 2025 کی شب کو "گمشاد ہوٹل” میں پیش آیا۔ مقتول تربت […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ