جعفر ایکسپریس قبضہ، بی ایل اے نے حملے کی ویڈیو اور فدائیوں کے پیغامات جاری کر دیے

رواں سال 11 مارچ 2025 کو بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جعفر ایکسپریس پر کیے گئے حملے کی تفصیلی ویڈیو جاری کر دی گئی ہے۔
“آپریشن درہ بولان” کے عنوان سے 35 منٹ دورانیے پر مشتمل یہ ویڈیو بی ایل اے نے اپنے آفیشل چینل “ہکل” پر شائع کی ہے۔
ویڈیو کے آغاز میں بی ایل اے کے سابق سربراہ اور مجید بریگیڈ کے بانی جنرل اسلم بلوچ کا پیغام شامل ہے، جس میں انہیں کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے:

“آج ہماری یہ جنگ، ہماری جدوجہد ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ ہمیں سخت فیصلے لینے پڑ رہے ہیں۔ آج ہمارے نوجوان اس کے لیے تیار ہو چکے ہیں، وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ ان فیصلوں کے بغیر ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ بندوق کو روکنے کے لیے بندوق کی ضرورت ہے، بندوق کی آواز شاید کسی جگہ پہنچے۔ آج بلوچ نوجوان فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنے سروں، اپنی جان کی پروا کیے بغیر دشمن پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ان قربانیوں کے پیچھے جو مقصد ہے، وہ انتہائی مقدس ہے۔ اس مقصد کو اچھی طرح سمجھنا ہے اور اس کی حفاظت کرنی ہے۔”

ویڈیو میں موجودہ بی ایل اے سربراہ بشیر زیب بلوچ کا بیان بھی دکھایا گیا ہے، جس میں انہیں کہتے سنا جا سکتا ہے:

“ہمارے پاس جنگ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا، اور نہ ہی کوئی راستہ ہوگا۔ آئیے، نکلیں اس دشمن کے خلاف، اس کے دلالوں کے خلاف، ایک بہت ہی تیز اور انتہائی بے رحم جنگ کا آغاز کریں۔”

ویڈیو میں درجنوں جنگجوؤں کو جدید ہتھیاروں سے لیس، کارروائی کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک منظر میں بی ایل اے کا ایک جنگجو اپنے ساتھیوں کو کارروائی کے بارے میں بریفنگ دیتا ہے۔
بعد ازاں ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ بی ایل اے کے جنگجو مشکاف کے قریب گھات لگا کر پہلے ریلوے ٹریک کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیتے ہیں، جس سے جعفر ایکسپریس رک جاتی ہے۔ اس کے فوراً بعد سرمچار بڑی تعداد میں ٹرین میں داخل ہو کر پاکستانی فورسز کے درجنوں اہلکاروں کو حراست میں لے لیتے ہیں۔
ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ٹرین میں موجود خواتین، بچوں اور عام شہریوں کو بحفاظت رہا کر دیا جاتا ہے۔

بی ایل اے نے اس کارروائی کے دوران مارے گئے اپنے 12 جنگجوؤں کی تصاویر اور تفصیلات بھی جاری کی ہیں۔ ویڈیو کے آخر میں حملے میں شریک “فدائین” کے پیغامات شامل کیے گئے ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کی “مجید بریگیڈ” خاص طور پر مہلک کارروائیوں کے لیے جانی جاتی ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملے میں بھی مجید بریگیڈ کے جنگجوؤں نے حصہ لیا تھا، جنہوں نے تین دن تک ٹرین اور مسافروں کو یرغمال بنائے رکھا۔
بی ایل اے کے مطابق، انہوں نے 214 پاکستانی فوجی اہلکاروں کو حراست میں لینے کے بعد قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کی تھی، تاہم پاکستانی فورسز کی جانب سے عدم تعاون پر تمام یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

ویڈیو میں مجید بریگیڈ کے فدائین کے پیغامات شامل ہیں۔
فدائی احکام بلوچ اپنے پیغام میں کہتا ہے:

“سب سے پہلے ان تمام شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنا گھر، اپنی بہن بھائیوں، والدین کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے یہ سب کچھ کس کے لیے چھوڑا؟ ہمارے اور آپ کے لیے۔ نوجوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، ہمارے اور آپ کے لیے۔ تو آج میں نے ایک شعوری فیصلہ لیا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہترین فیصلہ ہے بلکہ یہ ایک عظیم فلسفہ ہے۔”

وہ مزید کہتا ہے:

“میرے ساتھی، میرے بلوچ بھائی بہنیں پہلے بھی اس فلسفے کا حصہ رہے ہیں۔ مفلسی انسان کو کھا جاتی ہے، تو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم جنگ کا راستہ نہیں اپنائیں گے تو ہم تاریخ میں بالکل ختم ہو جائیں گے۔ باتیں بہت ہو گئیں، لیکن میں خصوصی طور پر قوم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے نوجوانوں کو جنگ کا حصہ بننے سے ہرگز نہ روکیں، ان کے کمک کار بنیں، ان کا حوصلہ بنیں، لمحہ یاسمین بنیں۔”

وہ مزید کہتا ہے:

“میں اپنے گھر والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے لیے بالکل پریشان نہ ہوں۔ صرف میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں، قربان ہونے والے بہت سے اور نوجوان بھی ہیں۔ یہ فوج، یہ ریاست آج ہمارے بھائیوں، بہنوں کو زندانوں میں ڈالتی ہے، تو اس کا ایک سبق آموز جواب یہی ہے: اپنا ملک، اپنی سرزمین، اور وطن سے اس فوج کو نکالنا ہے۔”

فدائی اسامہ اپنے پیغام میں کہتا ہے:

“سب سے پہلے ان شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں جو اپنے مادر وطن پر قربان ہوئے۔ اس کے بعد بلوچ قوم کو ایک بار پھر پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آئیں، اپنے بھائیوں کے بازو بن کر ظالم و قابض کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ پنجابی اور اس کے دلالوں سے کوئی صلح نہیں ہوگی۔”

وہ کہتا ہے:

“میرے گھر والوں، ماں بہنوں کے لیے یہ پیغام ہے: میرا یہ پیغام آپ کو اس وقت ملے گا جب میں اپنے مشن کو سرانجام دے چکا ہوں گا۔ اس پیغام کا مقصد یہ ہے کہ جیسے میں نے یہ فیصلہ لیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ پر کوئی پریشانی یا ایسی حالت آئے، تو پریشان نہ ہونا۔ آج قوم ایسی حالت سے گزر رہی ہے کہ ایسے فیصلے اٹھانے ہوں گے۔ آج ہماری شناخت ختم ہونے کے خطرے میں ہے۔ اگر آج ہم جنگ نہیں کریں گے، ظلم کے سامنے کھڑے نہیں ہوں گے، تو ہمارا قومی تشخص اور وجود ختم ہو جائے گا۔ باتیں بہت ہو چکی ہیں، صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ پریشان نہ ہونا۔ میں ڈکیتی یا کسی اور غلط راستے پر اپنی جان نہیں دے رہا۔ میں نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے، یہ ایک شعوری عمل ہے۔ آپ فخر محسوس کریں کہ آپ کا بیٹا اس راہ میں شہید ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ صدمے کا شکار ہوں یا کوئی اور کیفیت طاری ہو جائے، لیکن آپ کو صبر اور حوصلے کے ساتھ اسے برداشت کرنا ہے۔ دشمن آپ پر دباؤ ڈال سکتا ہے یا تنظیم کے خلاف پریس کانفرنس کروانا چاہے گا یا کسی اور طریقے سے پروپیگنڈا کرنا چاہے گا، تو اس کا حصہ نہ بنیں۔”

وہ کہتا ہے:

“مجھ سے پہلے بہت سے ساتھی قربان ہوئے ہیں، جیسے کہ شہید ریحان۔ لمحہ یاسمین نے اپنے بیٹے کو قومی پرچم کے ساتھ رخصت کیا۔ شاری آپ کے سامنے ہے، جو اپنے بچوں کو چھوڑ کر اپنی زمین پر فدا ہو گئی۔ یہ حق کی جنگ ہے، ہر کوئی آ کر اس کا حصہ بنے۔ دشمن شکست خوردہ ہے، اور آگے بھی شکست کھائے گا، یہ ہمارا ایمان ہے۔ رخصت نہیں، ہم ایک ساتھ ہیں۔”

فدائی پرویز اپنے پیغام میں کہتا ہے:

“سرخ سلام ان تمام شہداء کو جنہوں نے اپنی انمول جانیں وطن اور قوم کی آسودگی کے لیے قربان کیں، اور سرخ سلام ان ساتھیوں کو جو پاکستانی زندانوں میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں، اور لاکھوں سلام ان ماؤں کو جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو وطن کی آزادی کے لیے قربان کیا۔ بلوچ قوم! آپ جانتے ہیں کہ ستر سالوں سے یہ جنگ جاری ہے، اور ہم پر قبضہ کرکے یہ جنگ مسلط کی گئی ہے۔”

“جس طرح پہلے ساتھی کہہ چکے ہیں اور آنے والے ساتھی بھی کہیں گے، لیکن ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اس جنگ کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ جس طرح کامریڈ (سنگت بشیر زیب بلوچ) ایک نشست میں کہتے ہیں کہ جنگ کے تین مراحل ہیں: پہلا مرحلہ جلسے جلوس، دوسرا گوریلا، اور تیسرے مرحلے میں قوم اور طاقتور، ظالم قابض کا براہ راست سامنا ہوتا ہے۔ آج ہمارے رہنماؤں کی مضبوط حکمت عملی کے باعث ہم تیسرے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس جنگ کو آگے بڑھائیں، اور اس میں مزید شدت لائیں، جیسے کہ پہلے ساتھیوں نے کی۔”

“یہ ہمارے ساتھیوں کی قربانیوں اور ہمارے شہداء کے باعث ہے کہ ہماری ستر سالہ جنگ نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ آج ہماری بہنیں: شہید سمیہ، شاری، ماہل اپنے جسموں پر بارود باندھ کر دشمن کو ضربیں لگا رہی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی نوجوان انتظار میں بیٹھا رہے کہ کب مجھے زندگی گزارنی ہے یا کب باہر جا کر چار پیسے کمانے ہیں۔ میرے خیال میں ان حالات میں ہماری بہنیں فدائی بن رہی ہیں، اور ہماری مائیں، بہنیں سڑکوں پر بے بسی کے عالم میں ہیں، اور ہم بیٹھ کر اپنی زندگی کی آسودگی کے لیے سوچیں؟”

“وقت یہی ہے کہ اگر آپ ایک شدید نوعیت کی جنگ کر سکتے ہیں تو کریں۔ دیکھیں، پاکستان ویسے ہی آپ کی سرزمین سے نکل جائے گا، آج نہیں تو کل، یا سو سال بعد۔ جہاں بھی گوریلا جنگ ہوئی ہے، وہاں منزل حاصل کی گئی ہے۔ اس دورانیے کو مکمل ہونے میں سو سال، دو سو سال یا بیس سال لگ سکتے ہیں۔ اب اس دورانیے کو کم کرنا آپ کے اوپر ہے۔ آپ جنگ میں شدت لائیں گے، آپ لہو بہائیں گے، قربانی دیں گے، جیسے پہلے کے ساتھیوں نے دی، تو آنے والی نسل جو بارود کی بو میں پرورش پائے گی، وہ اس جنگ کو مزید شدت کے ساتھ جاری رکھے گی۔”

“ہمارے بزرگوں نے شدت کے ساتھ جنگ نہیں کی۔ آج ہمارے ہاتھ میں بندوق ہے، ہم لڑ رہے ہیں، لیکن اگر ہمارے بزرگ شدت کے ساتھ جنگ کرتے تو آج ہماری صورتحال کچھ اور ہوتی۔ اب اگر آپ اس گوریلا جنگ کے دورانیے کو کم کرنا چاہتے ہیں تو شدت کے ساتھ جنگ کرنی ہوگی۔ جیسے کہ ویتنام میں امریکی فوجیوں کے ساتھ ہوا — وہاں ان کی لاشیں بھی نہیں ملتیں تھیں۔ امریکی عوام یہی سمجھتی تھی کہ ویتنامی لوگ ان کی لاشیں کھا جاتے ہیں۔ ہمیں دشمن میں اسی قسم کا خوف پیدا کرنا ہے۔ یہ جنگ آپ پر منحصر ہے۔”

“آپ دیکھیں کہ پہلے کے ساتھی دور سے دشمن پر فائرنگ کرتے تھے۔ اب آپ کو طے کرنا ہے کہ کیا آپ ایسی جنگ چاہتے ہیں یا وہ جس میں جنگجو دشمن کے کیمپوں میں گھس کر فدائی کارروائیاں کریں اور دنیا کو پیغام دیں کہ پنجابی فوج کی اصلیت کیا ہے؟ آپ کون سی جنگ منتخب کرتے ہیں؟ غلامانہ زندگی یا شدید گوریلا جنگ؟ اگر پہلا راستہ اپنایا تو ہماری منزل بہت دور ہے۔ اگر منزل کو قریب لانا ہے، اس گوریلا سفر کو کم کرنا ہے تو آپ کو جنگ کرنی ہے۔”

“مرنا تو ویسے بھی ہے۔ ہم پانی، روزگار، اور ٹوکن کے لیے مر رہے ہیں۔ منشیات اور آپس کی لڑائیوں سے مر رہے ہیں۔ پاکستان مختلف طریقوں سے ہمیں مار رہا ہے۔ اگر اس منزل (آزادی) کو قریب کرنا ہے تو ہمیں جنگ کرنی ہے، جیسا کہ ساتھیوں نے کیا اور آنے والے بھی کریں گے۔ سروں کی قربانیوں کی قطار ختم نہیں ہوگی۔ لیکن اگر ہمیں اس جنگ کو جلد ختم کرنا ہے تو ہمیں شدت کے ساتھ جنگ کرنی ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو مجید بریگیڈ، بلوچ لبریشن آرمی، اور سرمچاروں کا حصہ بننا ہوگا۔”

فدائی شاہویز اپنے پیغام میں کہتا ہے:

“آج قابض ریاست ہماری نسل کشی کر رہی ہے۔ ہماری مائیں، بہنیں سڑکوں پر ہیں۔ ہمارے نوجوان بھائیوں کو اغوا کیا جاتا ہے، چھ چھ، سات سات سال تک لاپتہ رکھا جاتا ہے۔ ایک گھر سے دو دو بھائی لاپتہ کیے جاتے ہیں۔ ان ماؤں، بہنوں پر کیا گزرتی ہوگی؟ ان کی ایک ہی امید ہم جہد کار ہیں۔ ان کی امیدوں کو ہم توڑ نہیں سکتے، کیونکہ پاکستان سے کوئی امید نہیں ہے۔ وہ ہماری نسل کشی کر رہا ہے۔ ان ماؤں کی امیدوں اور ان کی عزت و ناموس کے لیے ہمیں ایسے فیصلے کرنے پڑے ہیں۔ اور پنجابی کی دلالی کرنے والوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے بھی دن گنے جا چکے ہیں۔”

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کیپٹن امجد بشام عرف شمس ساحر اور لیفٹیننٹ صبر اللہ معصوم عرف واھگ جان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

پیر مئی 19 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سترہ مئی 2025 کو اربن مشن کے دوران تنظیم کے سینیئر ساتھی کیپٹن امجد بشام عرف شمس ساحر اور لیفٹینینٹ صبراللہ بلوچ عرف واھگ جان نے صبح سات بجے کیچ کے مرکزی شہر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ