بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بی این ایم کے اسیر رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد میں مصروف رہنما سمی دین محمد پر قاتلانہ حملے کی کوشش نہ صرف بزدلانہ اور قابل مذمت عمل ہے بلکہ یہ ریاستی خوف، بوکھلاہٹ اور ناکامی کا واضح ثبوت بھی ہے۔ سمی دین محمد جو پندرہ سالوں سے ریاستی زندانوں میں مقید اپنے بہادر والد ڈاکٹر دین محمد کی بازیابی کے لیے جدوجہد میں مصروف اور جبر کا سامنا کر رہی ہیں، ان پر حملے کی سازش بلوچ قومی شعور کو دبانے کی ناکام کوشش ہے۔
انھوں نے کہا بلوچ قومی تحریک کے ہر فرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے حملے ریاست کی گرتی ہوئی دیواروں کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ریاستِ پاکستان اپنی عسکری طاقت اور خفیہ سازشوں کے ذریعے بلوچ قیادت کو نشانہ بنا کر تحریک کو ختم کرنا چاہتی ہے لیکن بلوچ قوم کی مضبوط مزاحمت اور عزم اسے ہمیشہ ناکام کرتے رہیں گے۔
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا سمی دین محمد نہ صرف جرات و قربانی کی زندہ مثال ہیں بلکہ بلوچ قومی شعور اور مزاحمت کی علامت بھی ہیں۔ ریاست کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایسے حملے ہماری تحریک کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط اور مستحکم بناتے ہیں۔
انھوں نے کہا ہم پاکستانی ریاست کے اس مذموم عمل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری، انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچ قوم پر جاری جبر اور قیادت پر حملوں کا نوٹس لیں۔ سمی دین محمد بلوچ قومی تحریک کی ایک توانا آواز ہیں اور ان پر حملے کی ذمہ دار ریاست پاکستان ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ قومی تحریک کے رہنما اور کارکن متحد ہو کر ہر سازش کا مقابلہ کریں گے۔ بلوچ سرزمین پر آزادی اور وقار کی جنگ جاری رہے گی اور ہم اس جدوجہد کو اپنے عظیم رہنماؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔
دوسری جانب بی این ایم سیکرٹری جنرل دلمراد نے جاری بیان میں کہاہے کہ سمی دین محمد پر حملے کی کوشش اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستان خوف کی فضا کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا لیکن پاکستان اس حقیقت سے غافل ہے کہ جب عسکری طاقت اور سفاکیت سے قائم کردہ خوف کا سامنا زندہ قوم کے تاریخی شعور، اپنی مٹی سے محبت اور قومی روایات سے ہوتا ہے تو خوف ہمیشہ شکست کھاتا ہے اور عزم و حوصلہ فتح یاب ہوتے ہیں۔
ستر سالہ غلامی اور استحصال کے بھاری چکی میں پسنے والی بلوچ قوم آج تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں اس کے بچوں اور بچیوں نے زندگی کے معانی ہی بدل دیے ہیں۔ آج بلوچ سرزمین پر زندگی کا مطلب اپنی قوم کے لیے جینا اور موت کا مطلب اپنی قوم کے لیے مرنا ہے۔ یہ شعور اور قربانی کا جذبہ اس قوم کی بقا اور آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بنیاد فراہم کر رہا ہے۔
سمی دین جان جرات، عزم، بہادری اور جہدِ مسلسل کی زندہ علامت اور قومی فخر ہیں، پاکستان نوشتہ دیوار پڑھ لیں جہاں قومی علامت مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں پوری قوم سمی بن جاتی ہیں اور مزاحمت کا علم تھام کر جدوجہد کے میدان میں اترتی ہے اور منزل پر پہنچ کر دم لیتی ہیں۔
اس طرح بی این ایم کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ
آج پارٹی کے سینئر رہنما اور ڈیڑھ عشروں سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین محمد پر پاکستانی فوج سے وابستہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے قاتلانہ حملے کی کوشش کی۔ حملہ آور خطرناک ہتھیاروں سے لیس تھے اور ان کا مقصد بلوچ جدوجہد کی ایک توانا آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا تھا۔
تاہم عوامی جرات کی بدولت حملہ آور موقع پر ہی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ یہ واقعہ نہ صرف ریاستی جبر اور سازشوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ بلوچ عوام کی اتحاد اور اپنی سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں کی تحفظ کے لیے عزم کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ان پر اس حملے کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ قابض بلوچ عوامی مزاحمت سے خوفزدہ ہیں اور انھیں دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔
ہم اس مذموم حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور پاکستان پر واضح کرتے ہیں کہ بلوچ قوم اپنی بقا کے جدوجہد میں برسرپیکار سیاسی کارکنوں کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایسے واقعات ہمارے حوصلے پست کرنے کے بجائے جدوجہد کی راہ میں مزید استقامت پیدا کرتے ہیں۔