شال وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 30 آگست کو گمشدہ افراد یعنی ( جبری خفیہ حراست میں لیئے جانے والے افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے ) جبری گمشدگی ایک ماورائے آئین اقدام اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ ایک انسانیت سوز ظلم ہے جو صرف لاپتہ فرد واحد کو نہیں بلکہ اس کے اہل خانہ اور معاشرے کو متاثر کرتا ہے آج کے دن پریس کانفرنس کرنے کا مقصد اس ماورائے آئین اقدام کی شدت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے کرب و اذیت کو اجاگر کرنا ہے۔
انھوں نے کہاکہ 2011 میں اقوام متحدہ اپنی قرار داد 65/209 کے زریعے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی منظوری دی تھی چونکہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والا شخص قانونی تحفظ سے محروم ہوجاتا ہے اس کی شناخت تک چھین کی جاتی ہے اور حکومتی سطح پر جبری لاپتہ شخص کے اہلخانہ کو معلومات فراہم نہیں کیاجاتا جسکی وجہ سے لاپتہ شخص کے اہلخانہ سمیت انکے دیگر لواحقین شدید زہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس لیے اقوام متحدہ کے دو بین الاقوامی کنونشنز نے ریاستی اداروں کے اس ماورائے آئین اقدام کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے اور اس عمل کو انسانی حقوق کی خلاف تمام خلاف ورزیوں میں سب سے بد ترین عمل سمجھا جاتا ہے۔
چیئرمیں نے کہاکہ ریاستی اداروں نے ڈکٹیٹر مشرف کے دور حکومت میں ملکی سلامتی کے نام پر بلوچستان سے بلوچ سیاسی کارکنوں، بلوچ دانشواروں اور بلوچ طلباء سمیت دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کرنے کے سلسلے کو شروع کیا جو تسلسل کے ساتھ تاحال جاری ہے۔
انھوں نے کہاکہ2000 میں علی اصغر کو پہلی مرتبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے جبری لاپتہ کیاگیا اور 14 دن کے بعد رہا کیاگیا ۔ علی اصغر نے اپنے رہائی کے بعد کہا کہ ان سے بلوچ سیاست اور بلوچستان کے حالات کے حوالے سے پوچھ کچ کی گئی ۔ دوسری مرتبہ علی اصغر کو 18 اکتوبر 2001 میں اسکے ایک دوست محمد اقبال کے ساتھ جبری لاپتہ کردیا 24 دن کے بعد محمد اقبال کو رہا کردیا لیکن علی اصغر تاحال لاپتہ ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر دین محمد اور زاکر مجید سمیت ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کے شکار ہوئے ہیں، لاپتہ افراد کے اہلخانہ کئی سالوں سے انصاف کے حصول کے لیے عدلیہ سمیت مختلف حکومتوں کے دروازوں پر مسلسل دستک دیتے آرہے ہیں آج تک انہیں ملکی قوانین تحت انصاف فراہم کیاگیا اور نہی حکومتی سطح پر انہیں یہ معلومات فراہم کیاجارہا ہے کہ انکے لاپتہ پیاروں کو کس جرم کے تحت حراست میں لیاگیا ہے ۔
وہ کس ادارے کے حراست میں ہے آیا وہ زندہ بھی ہے کہ نہیں بلکہ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھنکی جارہی ہے اور انہیں ریاستی ادارے فیک انکاونٹرز میں قتل کرکے مقابلے کا نام دے رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان سے ہزاروں لاپتہ افراد کے خاندان شدید زہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہیں ۔
بی وائی سی چیئرمیںن نے کہاکہ پاکستان میں جو بھی حکومت برسر اقتدار آتی ہے تو وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے مسلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے اقدامات اٹھانے کا اعلان کرتی ہے لیکن بعد میں وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے اپنی بےبسی کا اظہار کرتی ہے کیونکہ لاپتہ افراد کے مسلے میں ملک کے طاقتور ادارے ملوث ہے یہی وجہ ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کی طرف نہیں جارہا ہے بلکہ ہر آنے والے دنوں میں جبری گمشدگیوں کے سلسلسے میں تیزی آرہی ہے اور لاپتہ افراد کو دوران حراست قتل کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں پھکنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
انھوں نے کہاکہ گزشتہ روز خضدار سے چار نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہے جن کو رواں سال جبری لاپتہ کیا گیاتھا۔ اس کے علاوہ ایران اور افغانستان میں مقیم بلوچ مہاجرین کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا جارہا ہے اور بعض بلوچ مہاجرین کو وہاں سے جبری لاپتہ کرکے انہیں حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کی شکایت بھی موصول ہوا ہے رواں سال افغانستان سے محمدد علی لانگو اور ایران سے استاد واحد کمبر کو جبری لاپتہ کیاگیا ہے ۔
نصر اللہ بلوچ نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہاکہ آج 30 آگست کو جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کی مناسبت سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز حکومت پاکستان لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے روک تھام کے حوالے سے مطالبہ کرتی ہے۔
1_ حکومت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے
2_ جن لاپتہ افراد پر الزام ہے انہیں منظر عام پر لاکر عدالت میں پیش کیا جائے اگر ان پر جرم ثابت ہوتا ہے تو انہیں عدالت کے زریعے سزا دی جائے
3_ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنے کے سلسلے کو بند کیا جائے
4_ جو لاپتہ افراد اس دنیا میں نہیں ہے انکے خاندان کو معلومات فراہم کیا جائے
5_ جبری گمشدگیوں کے مسلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائے جائے
6_ جبری گمشدگیوں کو قانونا جرم قرار دیا جائے اس ماورائے قانون اقدام میں ملوث اداروں کو ملکی قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انکے اخیتیارات کو محدود کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے
7_ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن کی آزادانہ طور پر تشکیل نو کی جائے جو محض تحقیقات نہیں بلکہ حبری گمشدگیوں میں ملوث ملکی اداروں کے خلاف قانونی کاروئی کرنے کے ساتھ انصاف فراہم کرنے کے بھی قابل ہو
اور آخر میں یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بنائے گئے بین الاقوامی کنویشن پر دستخط کرے۔