شال جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5535 دن ہو گے ۔
اظہار یکجتی کرنے والوں میں قلات سے سیاسی سماجی کارکن نور احمد بلوچ ظہر احمد بلوچ اور دیگر نے اظہار یکجتی کی
وی بی ایم پی کے وائس چیر مین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جولائی کا مہینہ باقی مینہ کی طرح ریاستی جبر ظلم و ستم آپریشن مسخ شدہ لاشوں کے قابض کی روایات کو دہراتا ہوا بلوچ قوم پر پاکستانی ریاست کے قبضے اور غلامی کو دوام دینے میں تیزی دیکھنے میں آئی ریاستی جبر کا آغاز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شہادت سے ہوا جہاں ریاستی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کاروں نے بلوچستان بھر میں ٹارگٹ کلنگ جبری گمشدگیوں کے بعد اور دیگر ذرائع کے بعد پاکستان کے ظلم تشدد کا یہ نمونہ بھی پر امن جد صد میں کے حو صلے کم کرنے کے بجائے جر مد میں تیزی کے مترادف ہے
ماما قد پر بلوچ کہا کہ پاکستان ایک دہشت گرد انڈسٹری ہے یہ پوری دنیا اور انسانیت کے لیئے خطرہ ہے اگر اب بھی اس کی سانسیں نہ روکی گئیں تو دنیا کی سانسیں رک جائیگی پر امن جد صد میں ہر واقعہ عمل اہم ہوتا ہے اس پر آشوب دور میں جہاں قابض ریاست اور اس کے دلال ایجنٹوں پارلیمانی داشتوں کے شر سے کوئی بلوچ محفوظ نہیں
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستانی جسٹس ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کی نسل کشی پر عالمی اور داخلی لوگوں کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل خوب کھیل رہے چیف جٹس فرماتے ہیں کہ لاپتہ افراد بازیابی متعلق احکامات پر عمل نہیں ہو رہا سمجھ سے باہر ہے بلوچ عالمی قوانین اور عالمی دنیا کے امن کے چیمپینوں سے کا کہہ رہا ہے کہ جبری زیادتیوں گمشدگیوں کا نوٹس لیا جائے نہ کہ آپ سے اُمید لگائے بیٹھتے ہیں اگر واقعی قانون کی اہمیت ہے تو جبری گمشدگیوں کا مسلہ حل کریں پچھلے کئی مہینوں سے ریاستی اہم اداروں کی حرکات پارلیمانی پارٹیوں کی بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان جلد بلوچستان میں کوئی بڑا آپریشن کرنے والا ہے خاص کر مکران جھالاوان کو اپنا ہدف بنا کر کاروائی کرینگے۔