ایک جانب ریاست بندوق لے کر سر پر کھڑی ہے تو دوسری جانب مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گوادر میں نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کو بند کر کے پر امن شرکاء کے سروں پر بندوق رکھ کر میڈیا اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ حقیقت میں یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے پر امن ، آئینی اور قانونی جدو جہد کو نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اجازت دیتے ہیں۔

جس دن ہم نے بلوچ راجی مچی کا اعلان کیا تھا، اس دن سے ہم مسلسل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ بلوچ راجی مچی ایک روزہ پر امن قومی اجتماع ہے۔ لیکن شروع دن سے ہمیں ہراساں اور راجی مچی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شروع دنوں سے ہمیں راجی مچی کی جگہ تبدیل کرنے کے لیے بار بار ہراساں کیا جارہاہے۔ ہماری موقف اور مقاصد کل بھی واضح تھیں اور آج بھی ہیں کہ بلوچ راجی مچی پر امن سیاسی عمل ہے۔ ہم جہاں چاہیں جس دن چاہیں پر امن سیاسی اجتماع منعقد کر سکتے ہیں اور یہ ہمارا آئینی و قانونی اور سیاسی حق ہے۔

ہم م نے بلوچ راجی مچی کو گوادر میں منعقد کرنے کے لیے 28 جولائی سے دو ہفتے قبل ڈی سی گوادر کو این اوسی کے لیے درخواست دی تھی اور ملاقات کر کے ڈی سی گوادر کو مسلسل مکمل یقین دہانی کروائی کہ بلوچ راجی مچی ایک روزہ قومی اجتماع ہے جو مکمل پر امن ہوگا اور ہم ایک گملا بھی نہ ٹوٹنے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ ہمارے مرکزی رہنماؤں نے ڈی سی گوادر کو واضح طور پر کہا تھا کہ ہم اس چیز کو تحریری طور پر آپ کو لکھ کر دیں گے۔ لیکن ریاست اس چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی ، بس ایک بات کا رٹا لگائے ہوئے تھی کہ گوادر حساس زون ہے۔ گوادر آپ کے لیے حساس یا روڈ زون ہوگا ، ہمارے لیے یہ ہماری سرزمین ہے اور ہمیں اپنی ہی سرزمین پر پرامن طریقے سے عوامی اجتماع کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور پر امن عوامی اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت قانون اور آئین بھی دیتا ہے۔

ہم شروع دن سے پر یس کا نفرنس، اخباری بیانات ، ڈی سی گوادر اور کمشنر کوئٹہ کے ذریعے اس امر کو ریاست پر واضح کرتے رہے ہیں کہ ایک پر امن عوامی اجتماع پر طاقت استعمال کرنے کی غلطی نہ کریں۔ طاقت استعمال کرنے سے حالات نہ آپ کے کنٹرول میں ہوں گے اور نہ ہمارے کنٹرول میں ہوں گے۔ طاقت استعمال کرنے سے آپ ایک عوامی اجتماع کو کسی بھی صورت روک نہیں سکتے اور ایسا کرنے کی غلطی بھی نہ کریں۔ لیکن فاشسٹ ذہنیت اور جنگی منافع خوروں کو سیاسی باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔

ہم آج ریاست سے پوچھتے ہیں ، طاقت اور تشدد کے استعمال کے نتائج کیا ہوئے؟ کیا آپ کی طاقت، بندوق اور وحشت بلوچ راجی مچی کو روک پائی؟ کیا آپ کی طاقت کے استعمال سے بلوچ عوام ڈرگئی؟ البتہ اس کے برعکس طاقت کے استعمال نے ایک روزہ قومی اجتماع کو اب دھرنے میں تبدیل کر دیا اور پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ گزشتہ پانچ روز سے پورا بلوچستان بند ہے۔

انھوں نے کہاہے گوادر سمیت پورا مکران غیر اعلانیہ کرفیو کے سبب مفلوج ہے، نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہیں اور اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود یہ ریاست اب بھی اپنے بچگانہ حرکتوں سے باز نہیں آرہی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک پر امن عوامی اجتماع پر ریاست کے بے دریغ طاقت اور تشدد کے استعمال کے خلاف بلوچ راجی مچی کو ایک پر امن دھرنے میں منتقل کیا ہے۔

دھرنے کے دو انتہائی سادہ سے مطالبات ہیں ایک، بلوچ راجی مچی کے جتنے بھی شرکاء گرفتار ہوئے یا جبری گمشدگیوں کے شکار کیے گئے انہیں فوری طور پر رہا کریں۔

دوسرا، بلوچستان کے تمام راستوں کو کھول دیا جائے ، شاہراہوں پر کھڑی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔ لیکن یہ ریاست ان مطالبات کو بھی تسلیم کرنے کے بجائے مسلسل طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ ہم نے دھرنا کا آغاز کرتے ہی اپنے مطالبات کا اعلان میڈیا میں کیا تھا لیکن ان مطالبات پر مذاکرات کرنے کے بجائے رات کو ایک ایم آئی کے اہلکار کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجا گیا ۔ جب یہ منصوبہ ناکام ہوا تو صبح آرمی اور ایف سی نے چاروں طرف سے دھرنا گاہ کو گھیر کر پر امن شرکاء پر حملہ کیا۔ اس کے علاوہ تلار چیک پوسٹ ، کراچی، کوئٹہ میں گرفتاریوں اور طاقت کے استعمال کا سلسلہ جاری ہے اور بارکھان میں شرکاء پر ایف آئی آر درج کیے گئے ہیں۔ یہ اس ریاست کی سنجیدگی کا عالم ہے۔ ایک جانب طاقت اور تشدد کا بھر پور استعمال کررہی ہے اور دوسری جانب میڈیا میں مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔

انھوں نے کہاکہ اس ریاست کو واضح کرتی ہوں کہ بندوق سر پر رکھ کر کسی بھی صورت مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو سب سے پہلے طاقت اور تشدد کے استعمال کو فوری طور پر روکا جائے ۔ جبکہ اس وقت گوادر پدی زر ( میرین ڈرائیو) پر ہمارا دھرنا جاری ہے اور ہمارے دونوں مطالبات آپ کے سامنے موجود ہیں۔ اگر ریاست سنجیدہ ہے تو پدی زر جاری دھرنے میں آئے اور ہمارے ساتھ بات کرے۔ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ طاقت اور تشدد کے استعمال سے ہماری جدو جہد کو ختم کر سکتی ہے تو بیشک کریں اور اپنی فوری طاقت کو آزمائیں۔ ہم کسی صورت طاقت اور تشدد کے زور پر اپنی پر امن جدو جہد کو تم نہیں کریں گے۔

علاوہ ازیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ویڈیو جاری کرتے مذاکرات کے تمام نکات حکومت سامنے میڈیا ذریعے رکھے ہیں ۔

  • بلوچ راجی مچی کے شرکاء کے خلاف گوادر سمیت پورے بلوچستان میں طاقت اور تشدد کا استعمال مکمل طور پر روکا جائے گا۔
  • بلوچستان بھر میں راجی مچی کے گرفتار تمام شرکاء کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا۔
  • بلوچستان کی تمام شاہراہوں کو فوری طور پر کھولا جائے گا۔
  • گوادر میں لوگوں کے گھروں میں چھاپہ مارنے اور انہیں ہراساں کرنے سلسلے کو فوری طور پر بند کیا جائے گا۔

نوٹ: مذاکرات کے دوران اگر گوادر سمیت بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں بلوچ راجی مچی کے شرکاء کو ہراساں کیا گیا یا طاقت استعمال کی گئی تو ہم مذاکرات کو فوری طور پر موخر کرکے دھرنے کو جاری رکھیں گے ،جس کی۔ تمام تر ذمہداری حکومت پر ہوگی۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جب ہماری سرزمین لوٹی جائے اور ہمارے لوگوں پر ظلم کیا جائے تو بلوچ عوام خاموش نہیں رہیں گے۔ اختر ندیم بلوچ

جمعرات اگست 1 , 2024
بلوچ آزادی پسند رہنما اختر ندیم بلوچ نے اپنے ایک بیان میں بلوچستان میں پیش آنے والی واقعات پر کہا ہے کہ حوصلہ، صبر، اتحاد اور استقامت ہمیشہ مزاحمت کی بنیاد رہے ہیں، اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ خوبیاں بڑی سے بڑی طاقتوں کو بھی شکست دے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ