قابض پاکستان کو للکارنے والا شہید آغا عابد شاہ

تحریر: عزت بلوچ

مجھے یاد ہے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح پنجگور میں بھی حالات ابتر ہوتے چلے جارہے تھے، سیاسی کارکنوں کے لئے زمین تنگ کئے جا رہے تھے، مختلف جگہوں سے سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرکے بعد میں انکی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کا تسلسل جاری تھا، جو تاہنوز شدت کے ساتھ جاری ہے۔ قبضہ گیر کا واحد مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے تاکہ بلوچ آزادی پسند اور حق پرست سیاسی کارکنوں کو بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے دستبردار کیا جا سکے۔

لیکن شکست خوردہ اور درندہ صفت ریاست کی ناقص پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت تھا، جس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس بار جنگ مہم جوئی اور جذبات سے زیادہ نظریاتی بنیادوں پر پختہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ہے، جو جنگ زدہ بلوچ سرزمین کی گود میں جنم لینے والے فطری مزاحمت کار ہیں اور تازہ دم بلوچ نوجوان نسل پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے سے کئی گنا بڑے اور بے رحم دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں، وہ دشمن جس کا نہ کوئی ایمان و عقیدہ ہے اور نہ کوئی مذہب اور انسانیت ہے۔

اس وقت قابض ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ بلوچ نسل کشی میں مصروف تھا، مگر آغا عابد شاہ بلوچ کو یہ فکر لاحق تھا کہ ہمارے بعد اس تحریک کی ذمہ داری جب آنے والے نسل کے کندھوں پر ہوگی تو کیا وہ بلوچ قومی آزادی اور قومی خوشحالی کی خواب کو تعبیر کے لیے پوری ایمانداری سے منزل مقصود تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

یہ یقیناً کوئی عام سوال نہیں تھا اس کا تعلق مستقبل سے تھا، وہ مستقبل جن کا خدو خال واضح نہیں تھا۔ اور نہ ہی ماضی مزاحمت اور قومی آزادی کے جنگوں کے اعتبار سے اتنا درخشاں تھا، کیونکہ ماضی میں ہمیشہ قومی مزاحمت کا سلسلہ کہیں نہ کہیں تھکاوٹ، غیر مستقل مزاجی کا شکار ہوکر ہمیشہ رک جاتا تھا، اور پھر کسی اور سمت گامزن ہونے لگتا۔ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہید عابد شاہ بلوچ کی دور اندیش نظریں مستقبل میں ٹکے ہوئے تھے، ان کو اپنی جان کی حفاظت کا کوئی فکر نہیں تھا، وہ بلوچ قومی خوشحالی کے فلسفے کا ایک وژنری اور نظریاتی لیڈر تھا، شاید اس لئے کہ بچپن میں جب وہ ابھی جبلت کے زیر اثر تھا تب وہ اپنے مادر وطن کی محبت میں سرشار اس نظریاتی کاروان کا حصہ بنا۔ ان کی تربیت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نظریاتی اور فکری پلیٹ فارم سے ہوا۔ اس لئے وہ ایک غضب کا آرگنائزر تھا۔

انھوں نے اپنی دوراندیش فکری بالیدگی اور بہادری کی وجہ سے بلوچ قوم خاص کر بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے دلوں میں اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں اپنے لیے اعلیٰ مقام بنایا۔ وہ اسکول کے زمانے میں بی ایس او کے یونٹ سیکریٹری سے ہوتا هوا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرمین کے عہدے پر پہنچا، شہید عابد شاہ بلوچ پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کو بلوچ قومی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑا رکاوٹ سمجھتے تھے۔

اس لئے جب ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پارلیمانی سیاست سے الگ ہو کر بی ایس او آزاد کی بنیاد رکھا تب شہید آغا عابد شاہ بلوچ ہی وہ پہلا سیاسی کارکن تھا جس نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے فکرو فلسفے کے ساتھ اپنے سیاسی وابستگی کا اظہار کیا اور بطور بی ایس او آزاد کے بانی رکن انہوں نے مکران بھر میں بی ایس او آزاد کے پروگرام کو اپنے سیاسی فہم اور فراست سے اس قدر مضبوط بنیاد فراہم کیں کہ مکران بی ایس او آزاد کا گڑھ بن گیا ۔جب شہید آغا عابد شاہ بی ایس او سے فارغ ہوا، تو انہوں نے بلوچستان نیشنل موومنٹ سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور شہید غلام محمد بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے فکر کا یہ فطری اور پیدائشی مزاحمت کار سیاسی قائد کے ولولہ انگیز قیادت میں بلوچ قومی آزادی کی سوچ گھر گھر پہنچ گیا۔

تب ریاست اس انقلابی قوم پرست رہنما کے پیچھے پڑگیا , مُجھے اچھی طرح یاد ہے جب ان کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر یہاں سے چلا جائے ،کیونکہ ریاستی اداروں نے آزادی پسند سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ، لیکن تمام خطرات کے باوجود انہوں نے اپنی زمین اپنی قوم سے دور رہنے اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر وفا کی ایک ایسی داستان رقم کی جس کو بلوچ قومی تاریخ ہمیشہ سرخ سلام کے ساتھ یاد رکھے گی۔

اگر شہید آغا عابد شاہ بلوچ شہادت کو زندگی پر ترجیح دیتے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے ملک بلوچستان سے باہر جاسکتا تھا مگر اس پیدائشی فدائی سرمچار نے دیار غیر میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے سے زیادہ اپنے آخری دم تک اپنے گل زمین اور اپنی قوم کے لئے جان فدا ہونے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا ۔اور یوں دشمن نے علاقائی غداروں اور دو ٹکے کے ضمیر فروشوں کے ساتھ مل کر شہید آغا عابد شاہ اور ان کے ایک قریبی ساتھی سفیر بلوچ اور ستار بلوچ کے ساتھ دن دھاڑے ریاستی خفیہ اداروں نے ایف سی کی بھاری نفری کے ساتھ سول ہسپتال پنجگور کے احاطے کے اندر واقع ایک میڈیکل اسٹور سے اس وقت زبردستی گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک غریب ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے کےلئے وہاں موجود تھا۔

تقریبا ایک سال تک وہ ریاستی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز ذہنی اور جسمانی اذیتیں برداشت کرتا رہا اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ساتھیوں سمیت پنجگور کے ایک پہاڑی علاقہ سوراپ میں اس حالت میں ملے جب ان کے پورے جسم کو ڈرل مشین سے ڈرل کرنے اور بعد میں ان کے سروں پہ انتہائی قریب سے گولیاں مارنے کے بعد تیزاب سے ان کے چہروں کو مسخ کرنے کے بعد ان کو ساتھیوں سمیت ایک اجتماعی قبر میں دفنایا گیا تھا۔

مگر بلوچ مادر وطن کی کوکھ سے جنم لینے والے ان جانباز پیدائشی اور فطری مزاحمت کار کی لاش کو بھی گل زمین نے اپنے کوکھ سے ایک بار پھر جنم دیا، 11 مئی 2011 کو شہید آغا عابد شاہ بلوچ اور ان کے قریبی ساتھی سفیر بلوچ ،ستار بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں سوراپ کے پہاڑوں سے دستیاب ہوئے۔ بلوچ عوام نے اپنے ان قومی شہدا کو قومی اعزاز کے ساتھ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد گلزمین کر دیا ۔۔۔

آج ان کی برسی کے موقع پر میں شہید آغا عابد شاہ بلوچ کو ان کی لازوال قربانیوں پرسرخ سلام پیش کرنے کے ساتھ اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے ہزاروں ساتھی آج بھی اس درندہ صفت پاکستانی ریاست اور بلوچ دشمن کے ساتھ پوری قوت جوان مردی اور بہادری کے ساتھ میدان جنگ میں نبردآزما ہیں، اور بلوچ قومی آزادی کی یہ جنگ آخری دشمن تک جاری رہے گا۔

بلوچ قوم شہید آغا عابد شاہ کی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر بلوچ قومی دشمن کو بلوچ سرزمین سے بے دخل کر دیں گے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

تربت جبری گمشدگیوں میں تیزی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں طالب علم جبری لاپتہ

ہفتہ مئی 11 , 2024
بلوچستان کے علاقے تربت سے پاکستانی فوج نے یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنس سے فارغ التحصیل حیات بلوچ ولد جمعہ بلوچ کے نامی نوجوان طالب علم کو حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا ہے ۔ علاقائی ذرائع کے مطابق نوجوان طالب علم کو رات ایک بجے انکے گھر، […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ