بلوچ ثقافت کے دن کے مناسبت سے آرٹس کونسل تا کراچی پریس کلب تک بی وائی سی نے ایک شاندار ریلی کا انعقاد کیا

بلوچ ثقافت کے دن کے مناسبت سے آرٹس کونسل تا کراچی پریس کلب تک بی وائی سی نے ایک شاندار ریلی کا انعقاد کیا

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) نے ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچ کلچر ڈے کے دن کو لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کو جہد جاری رکھنے پر خراج تحسین اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مناکر مزاحمت کو بلوچ کلچر کا ایک اہم جُز قرار دیا۔ اس موقع پر آرٹس کونسل تا کراچی پریس کلب ایک شاندار ریلی کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور کراچی میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی جانب کاروان میں ایک قدم اور بڑھایا۔

ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ بلوچ مزاحمت کی تاریخ ہمیشہ سرخ الفاظوں میں لکھی جائے گی لیکن ایک دہائی سے جو بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین ہیں جنہوں نے اسٹیٹ وِد اِن اسٹیٹ کے اندر جو ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل داد ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ جس قدر گمبھیر ہے اتنا ہی گمبھیر اُس کے لئے آواز اٹھانا ہے کیوں کہ جب آپ آواز اٹھاتے ہو تو ریاستی کچھ ادارے تو آپ کے راستے کی رکاوٹ تو بنتے ہیں ہی بلکہ آپ کا خاندان اور معاشرہ بھی آپ کو روکتا ہے، کبھی ڈر کی وجہ سے یا پھر کبھی دیگر بنیادوں پر لیکن اگر ان لاپتہ افراد کے خاندانوں نے ہر قسم کی دھمکیوں اور ڈر کا سامنا کر کے یہاں تک پہنچے ہیں جہاں اسلام آباد جیسے شہر میں بھی آواز دبانے کی خاطر لاؤڈ اسپیکر تو چُرا لیتے ہیں لیکن شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ آوازیں لاؤڈ اسپیکر سے پرے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچ کلچر میں مزاحمت ہے تبھی لیاری گینگ وار کو ہماری رگوں میں گھولنے کے بہت کوشش کی لیکن عوامی ہمت نے گینگ وار کو روکا ہے اور آئیندہ بھی اپنی وس میں جتنا ہوسکے اتنا روکے گی۔ ملیر گرین بیلٹ کو ریاست نے اپنی چالاکیوں سے تباہ تو کردیا لیکن عوامی مزاحمت ہی تھی جس نے لوگوں تک یہ شعور پہنچایا کہ ریاست کیا کررہی ہے اور کیا کرنا چاہ رہی ہے۔

آج بھی گولیمار، جہانگیر روڈ، ماڑی پور اور لیاری بلوچ آبادی جیسے علاقوں میں نشہ گھول گھول کر کروایا جا رہا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے زہنوں کو ماعوف نہ کیا تو یہ بربادی کی راہ میں ہمارے لئے رکاوٹ بنیں گے۔

بلوچ کلچر ڈے کے موقعے پر بی وائی سی (کراچی) کی آرگنائزر آمنہ نے بلوچ شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اور شہید ملک ناز کی مزاحمت کو سراہا اور بتایا کہ اگر ملک ناز ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کو اُس دن نہ روکتی تو شاید آج یہ ڈیتھ اسکواڈ گھر گھر ڈاکا مار رہے ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک ناز کی مزاحمت تھی اسی لئے بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کا وجود ہے۔ شہید حیات کے واقعے کا غصہ اب تک ہمارے وجود میں موجود ہے، ہمیں وہ آٹھ گولیاں نہیں بھولیں اور نہ ہی ہم بھولیں گے۔ شہید کلثوم کا واقعہ بھی ابھی ہرا ہے۔ لیاری میں ہمارے ہر ایک نوجوان جو جھوٹے گینگ وار کیس میں مارا جانا یا چاہے بکتر بند گاڑیوں کے نیچے ہمارے بچوں کا کچل جانا، ہم کچھ نہیں بھولے۔ سی ٹی ڈی بلوچ لاپتہ افراد کو دہشتگرد بتا کر جو قتل کرتی ہے کیا اُس قتل کو ثابت کرسکتی ہے؟ کیا یہ ثابت کرسکتی ہے کہ شہید بالاچ مسلح تھا؟ گولیاں مارنا آپ کی فطرت میں ہوگا لیکن ان گولیوں کا حساب لینا ہماری ثقافت میں ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کی اس ریلی میں لاپتہ شبیر کی بہن سیما، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمّی، کراچی میں موجود ہمارے سیاسی اور سماجی کارکنان سمیت کراچی کی عوام نے بھر پور شرکت کی اور اس ریلی کو کامیاب بنایا۔

آخر میں مقررین نے کہا کہ گوادر اور گرد نواح میں باقاعدہ فلڈ رلیف کا کام اسی ہفتے شروع کیا جائے گا ہم انسان دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں گوادر، جیونی اور گردونواح کے علاقوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس وقت انہیں راشن، کمبل اور پردے کے لئے پلاسٹک شیٹس اور میڈیسن کی ضرورت ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

ڈیرہ بگٹی میں ڈیتھ سکواڈ کے دو کارندے اور سبی میں ایک شخص بم دھماکوں میں  زخمی،مستونگ فائرنگ میں طالب علم ھلاک

اتوار مارچ 3 , 2024
ڈیرہ بگٹی میں ڈیتھ سکواڈ کے دو کارندے اور سبی میں ایک شخص بم دھماکوں میں زخمی،مستونگ فائرنگ میں طالب علم ھلاک

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ