تحریر: دل مراد بلوچ
بانک کریمہ بلوچ، تمہاری یاد میں میرے الفاظ لرزاں ہیں، جیسے ان میں تمہارے دکھ اور المناک انجام کو بیان کرنے کی سکت ہی نہ ہو۔ میرے بے بس اور معذور الفاظ تمہاری جلاوطنی کی سرد تنہائی اور تمہاری دردناک موت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ تمہاری موت، وہ بھی جلاوطنی میں، غریب الوطنی کی حالت میں، ہم سب کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا زخم ہے۔ کریمہ، تم اس انداز سے ہم سے رخصت ہوئیں کہ اپنی تمپ کی مٹی کو آخری بار چوم نہ سکیں، مکران کی ہواؤں کو الوداع نہ کہہ سکیں اور بلوچستان کی گود میں سکون سے سر رکھے عدم کے سفر پر روانہ نہ ہو سکیں۔
کتنی دردناک ہوگی وہ ساعت جب تم وطن سے کوسوں دور، ایک برفانی جھیل میں، اپنی پری جیسی معصومیت اور تتلیوں جیسی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے منجمد ہو گئیں۔ شاید یہی اس کہانی کا سب سے المناک حصہ ہے، جلاوطنی کی موت، جو نہ صرف زندگی کو توڑ دیتی ہے بلکہ اپنے پیچھے ایک صدی کی خاموش چیخیں اور کبھی نہ بھرنے والے زخم چھوڑ جاتی ہے۔
کینیڈا کی برفانی ہواؤں میں جلاوطن کریمہ کی تنہائی کو محسوس کرنے کے لیے کون بچا تھا؟ شاید ساجد، ہاں، ساجد۔ کیونکہ کریمہ اور ساجد ایک دوسرے کو سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے درد کے رازدار تھے۔ مگر "بلوچ دانش” ساجد کو بھی ہم نے سویڈن کی برف میں منجمد کر دیا۔ اسے بھی ایک یخ بستہ تابوت میں بند کرکے دھرتی ماتا کے قدموں میں پیش کیا۔ ایسے قیمتی سروں کی ایسی بے بسی اور بے وقت رخصتی پر دھرتی ماتا نے ہمیں کیسی پھٹکار دی ہوگی؟ کتنی دھائی دی ہوگی؟ اس کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟
کریمہ، جو اپنی مٹی کے گلی کوچوں میں ہر گھر کے لیے امید کی کرن تھیں، وہاں دور دیس میں کس کرب اور اذیت سے گزریں، یہ صرف کریمہ جانتی تھی یا کریمہ کا حساس دل جانتا ہے۔ ان کا یہ سفر، بلوچ سرزمین پر کسی سیاسی تنظیم کی پہلی خاتون سربراہ اور نڈر رہنما کے طور پر ابھرنے سے لے کر جلاوطن شہادت تک، ہماری تاریخ کا سب سے کربناک باب ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر دل کو تڑپاتی ہے، ہر ذہن کو جھنجوڑتی ہے اور ہر لمحہ ہمیں اپنی محرومیوں کی یاد دلاتی ہے۔
کریمہ کی موت نے ہمیں صرف ایک ساتھی اور رہنما سے محروم نہیں کیا بلکہ ہماری روح پر ایک ایسا زخم چھوڑ دیا جو کبھی بھر نہیں سکتا۔ یہ موت ہمیں بار بار یہ تلخ سوال کرتی ہے کہ ایک قوم، جو اپنی آزادی کے خواب دیکھتی ہے، اسے اپنی بیٹیوں کی لاشیں جلاوطنی میں کیوں وصول کرنی پڑتی ہیں؟ بانک کریمہ کی موت صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی اذیت کا ایک دائمی نشان ہے، ایک ایسی خاموش چیخ جو ہمارے دلوں میں ہمیشہ گونجتی رہے گی اور کبھی ماند نہیں پڑے گی۔
آج بانک کریمہ بلوچ کی برسی ہے۔ لوگ انہیں ایک نڈر رہنما، ایک انقلابی شخصیت، اور جدوجہد کی مثالی علامت کے طور پر یاد کرتے ہیں لیکن میرے لیے وہ دوست اور سنگت تھیں۔ ہم نے کئی پروگراموں، جلسوں اور جدوجہد کے یادگار لمحات ایک ساتھ گزارے۔ ان کی مسکراہٹ میں ایک عجیب سی توانائی تھی، ایک ایسا سکون جو لگتا تھا کہ ہر دکھ کو سمجھتی ہے، ہر اذیت کو سہنے کی ہمت رکھتی ہے اور پھر بھی دوسروں کو حوصلہ دیتی ہے۔ وہ مسکراہٹ جیسے کہتی ہو کہ جدوجہد کے راستے پر دکھ سہنا ہی اصل جیت ہے۔
دنیا سمجھتی ہے کہ دیارِ غیر میں کریمہ شہید ہوئی، لیکن میرے لیے کینیڈا کی برفانی جھیل کے کنارے صرف کریمہ نہیں، بلکہ ایک آفاقی مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے آہ و فغان میں تبدیل ہو گئی۔ وہ مسکراہٹ جو آزادی کا استعارہ تھی، جس میں زندگی کی روشنی اور بغاوت کی چمک تھی۔ وہ مسکراہٹ جس میں ساتھ نبھانے کا عزم تھا، درد کو سمجھنے کی گہرائی تھی، نصیحت کا خلوص تھا اور گُل و لالہ کی شادابی جیسا سکون تھا۔
عطا شاد کو شاید ان کے وجدان نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بلوچ ایک دن دنیا کے کسی آخری کونے کی برفانی جھیل میں ایک کلکلاتی روح اور تتلیوں جیسی مسکراہٹ دفن کریں گے۔ شاید اسی لیے عطا شاد نے "برفاب” جیسی اصطلاح تخلیق کی، حالانکہ اردو دانوں نے اسے بدعت قرار دیا لیکن عطا شاد کا وجدان، ہماری تاریخ کے دردناک بابوں کو پہلے ہی پڑھ چکا تھا، ہماری ان کم بختیوں کی پیش گوئیاں کرتا رہا جنہیں ہم نے مجذوب کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ ان کے الفاظ ان سچائیوں کا عکس تھے، جنہیں سمجھنے کے لیے شاید ہم آج بھی تیار نہیں ہیں۔
ڈاکٹر منان کے قہقہوں کو ہم نے مستونگ کی زمین میں سنگت ثنا کے پہلو میں منوں مٹی تلے دفن کر دیا اور پھر بھی خود کو تسلی دی کہ کریمہ کی مسکراہٹ دشمن کی دسترس سے دور، بہت دور، کینیڈا میں محفوظ ہے۔ ہم نے سوچا کہ اس مسکراہٹ سے اپنی روح کو سکون دیں گے، اپنے تھکے ہوئے دلوں کو توانائی بخشیں گے اور جدوجہد کی سنگلاخ، بے رحم راہوں پر آگے بڑھتے رہیں گے لیکن ہماری بدنصیبی بھی کچھ کم نہ تھی۔ وہ مسکراہٹ، جو ہمیں امید دیتی تھی، کینیڈا سے ایک تابوت میں بند ہوکر تمپ پہنچی۔
تمپ کی مٹی شاید خوش ہوگی کہ اسے اس کی کریمہ واپس مل گئی، لیکن ہم؟ ہم اپنی روح سے محروم ہو گئے، ہم سے ہماری اجتماعی مسکراہٹ چھین لی گئی۔ اب جب اجتماعی مسکراہٹ ہی نہ رہی تو کون بدنصیب دسمبر میں مسکرا سکتا ہے؟ کون اس مہینے میں تتلیوں کی نازکی یا گواڑخ جیسی خوبصورتی کا دیدار کر سکتا ہے؟
ہم کریمہ کو "شہید” کہتے ہیں، خود کو تسلی دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں لیکن شاید ہمیں اسے "قتل” کہنا چاہیے تاکہ یہ لفظ ہمیں یاد دلاتا رہے کہ ہمارا کریمہ ہم سے چھینا گیا ہے۔ یہ یاد ہمیں مجبور کرتی کہ ہم اس قتل کا حساب لیں۔ لیکن کریمہ کا بدلہ لینا آسان نہیں۔ کریمہ کی انتقام کے لیے کریمہ بننا پڑتا ہے۔ کریمہ جیسی ہمت، عزم اور قربانی کے لیے دل گردے چاہیے۔
جانتا ہوں، کریمہ بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مگر اگر ہم کریمہ نہ بن پاتے تو کم از کم ان کے راستے پر تو چل سکتے تھے۔ ان کے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے خود کو اس جدوجہد کا حصہ بنا سکتے تھے جو ہمیں آزادی، انصاف اور اپنے وجود کا شعور دے۔
بانک کریمہ نے جس عزم، حوصلے، اور قربانی کے ساتھ جدوجہد کی، اسے الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں۔ وہ بی ایس او کی سربراہ تھیں، ایک رہنما، ایک مثال اور میں اس وقت شاید محض ایک عام رکن تھا اور آج بھی وہی عام کارکن ہوں، لیکن آج کریمہ ہم میں موجود نہیں۔ اگر آج وہ دیکھ پاتیں کہ ایک بے نام، بے نشان، اور بے نام و نسب کا عام کارکن کسی سیاسی پارٹی کے مرکزی عہدے پر پہنچ چکا ہے، تو یقیناً ان کی خوشی بے حد ہوتی۔ میرے خیال میں کریمہ مسکراتی، شاید بات گول کرتے ہوئے کہتی، "توکل، تو شر نبشتہ کن ئے” اور پھر قہقہے لگاتی۔ ان کا یہ قہقہ، ان کا یہ انداز میرے لیے دنیا کا سب سے بڑا انعام ہوتا۔ مگر میں حرماں نصیب، کہ اس انعام سے کبھی بہرہ ور نہ ہو سکا۔
بانک کریمہ نے ہمیں یہ سکھایا کہ جدوجہد صرف نعروں اور تقاریر سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے ہوتی ہے، ہر کوچہ، ہر گاؤں، اور ہر دل تک پہنچ کر لوگوں کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنانے سے ہوتی ہے۔ ان کا ہر قدم، ہر بات اور ہر فیصلہ ایک پیغام تھا کہ تبدیلی صرف عزم اور عمل کے امتزاج سے ممکن ہے۔
آج جب میں خواتین اور نوجوانوں کو تحریک میں پرجوش دیکھتا ہوں تو بانک کریمہ کی یاد شدت سے آتی ہے۔ وہی تھیں جنہوں نے اپنی جرات اور بے مثال قیادت سے یہ ثابت کیا کہ جدوجہد میں خواتین اور نوجوانوں کا کردار کتنا اہم ہے۔ انہوں نے اپنی قربانی اور اپنے عزم سے اس تحریک کو ان کے لیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید بنا دیا۔
کینیڈا میں ان کے "قتل” نے ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ بانک کریمہ کی وجود ہمارے لیے نہ صرف ایک تحریک تھا بلکہ ہماری جدوجہد کی روح تھا۔ ان کی غیر موجودگی آج بھی ہمارے عزم کی جڑوں میں ایک خلاء کی صورت محسوس ہوتی ہے، ایک ایسا خلا جو ہمیں ہر لمحہ ایک عزم و حوصلہ کے کمی کا احساس دلاتا ہے۔
شاید کریمہ کی عدم موجودگی نے ہمیں اندر سے مزید مضبوط کیا۔ تمہاری قربانی نے ہمیں یہ سکھایا کہ جدوجہد کا سفر صرف رہنما کی موجودگی پر منحصر نہیں بلکہ اس کے نظریے اور عزم کو آگے بڑھانے پر ہے۔ ہم، تمہارے بغیر، شاید کبھی بھی وہ نہ بن پاتے جو آج ہیں۔ تمہاری جدوجہد اور قربانی ہمیں آگے بڑھنے اور تمہارے خوابوں کو حقیقت بنانے کی ترغیب دیتی ہے۔
کینیڈا میں ان کے "قتل” نے ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ بانک کریمہ، تمہارا وجود ہمارے لیے نہ صرف ایک تحریک تھا بلکہ ہماری جدوجہد کی روح تھا۔ تمہاری غیر موجودگی آج بھی ہمارے عزم کی جڑوں میں ایک خلاء کی صورت محسوس ہوتی ہے، ایک ایسا خلا جو ہمیں ہر لمحہ تمہاری کمی کا احساس دلاتا ہے لیکن شاید اسی نے ہمیں اندر سے مضبوط بھی کیا۔ ہم ان کے بغیر شاید کبھی بھی وہ نہ بن پاتے جو آج ہیں۔
بانک کریمہ، تمہاری قربانی نے ہمیں یہ سکھایا کہ جدوجہد کا سفر صرف رہنما کی موجودگی پر منحصر نہیں بلکہ اس کے نظریے، جذبے اور عزم کو آگے بڑھانے پر ہے۔ تمہاری زندگی اور شہادت نے ہمیں سکھایا کہ عظیم مقاصد کے لیے اپنی ذات سے بڑھ کر سوچنا اور عمل کرنا ضروری ہے۔
کریمہ، میری بانک، تم ہماری تاریخ کا ایک زندہ باب ہو۔ تمہارے لفظ، تمہارے خواب اور تمہاری مسکراہٹ ہماری تحریک کی روشنی ہیں۔ آج تمہارے بغیر، یہ تحریک تمہارے عزم سے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ تمہاری یاد، تمہاری کہانی اور تمہارا نام ہمیشہ ہمارے دلوں اور ہماری جدوجہد کا حصہ رہیں گے۔ تم نے جس آزادی کے خواب کے لیے اپنی جان دی، وہ خواب اب ہم سب کا مقصد ہے۔ تمہاری موت ایک پیغام ہے کہ یہ سفر مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہم تمہارے دکھائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے، اپنی سعی جاریں گے، "لہو اور قلم کے ‘خون’ کی آخری قطرے تک”۔۔۔