درد کی منظر۔تحریر – ‎مہر زاد بلوچ

‎اکتوبر 2023 ۲۱
‎ سورج کی کرنیں میری آنکھوں
پر پڑ رہے تھے ۔ جب میں چارپائی سے اٹھی تو سامنے آسر پر چائے بن رہی تھی ۔ دادا جان ریڈیو کو سن رہے تھے ۔ دادی جان لسی بنا رہی تھی ۔ علی حیدر قلم کو تراش رہا تھا ۔ امی جان باجرے کی روٹیاں بنا رہی تھی ۔ ہر طرف حسین لوگ اور حسین منظر تھا ۔ کمرے کے سائے میں بیٹھ کر میں نے ان دنوں کو یاد کیا ۔جب میں چھوٹی تھی ۔ میں ہر روز ابا کا ہاتھ پکڑ کر سکول کو جاتی تھی ۔ پیروں میں پھٹے جوتے تھے ۔ بدن پر ایک پرانا قمیض تھا ۔ رومال میں لپٹی ایک باجرے کی روٹی اور ایک پیاز تھا ۔ بال تیلوں سے لدے ہوئے تھے ۔ مگر میں پھر بھی خوش تھی ۔ بکریوں کو چرانا کنویں سے پانی بھر کر لانا ۔ میرا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ وہ ذہنی سکون وہ آزادی مجھے آج بھی یاد آتا ہے ۔

مجھے یاد ہے عید کے روز میں خوامخواہ ناراض ہوتی تھی ۔ ابا جان میرے ہاتھوں پر مہندی لگاتے تھے اور ۔ میرے عید کا جوڑا ہر عید کو آتا تھا ۔ مگر مجھے نہیں یاد کبھی بابا نے اپنے لیے عید کا جوڑا لیا ہو ۔ ان کا وہ پھٹا پرانا قمیض اس کو نہ جانے کتنے بار دادی نے تروپہ لگایا ہوگا ۔ ان کے وہ پرانے جوتے جنہیں وہ ہر روز صبح اٹھ کر کیل لگا کر ٹھیک کرتے تھے ۔ ابا جان میں یاد کرتی ہوں ان لمحوں کو جب آپ قریب تھے ۔ ابا جان میرے پاس لفظ نہیں ہے جو میرے درد کو بیان کر سکیں ۔۔۔ میرا روح دکھوں کا عادی بن چکا ہے ۔جس روز کینسر نے آپ کی جان لے لی ۔ تب۔ میں 11 برس کی ایک چھوٹی بچی تھی ۔ مجھے یاد ہے میں اور علی حیدر بکریاں چرا کر جب گھر کو ائے ۔

اماں جان زور ذور
‎ سے رو رہی تھی ۔ دادا جان آپ لاش کے قریب بیٹھ کر خدا سے اپنی موت کی فریاد کر رہے تھے ۔۔ دادی کمرے کے کونے میں گھوم سوم بیٹھی تھی ۔ اور میری چھوٹی بہن آپ کو پکار رہی تھی ۔ بابا وہ منظر آج بھی میری انکھوں میں قید ہے ۔ بابا میں یقین نہیں کر پا رہی تھی ۔ جو شخص میری زندگی کا سرمایہ تھا وہ اب نہیں رہا ۔ وہ بے بسی وہ ادھورا پن آج بھی مجھے یاد ہے ۔۔۔ ابا جان کتنا مشکل رہا ہوگا میرے لیے اپنے آنکھوں کے سامنے آپ کو قبر میں اترتے دیکھنا ۔۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے ابا جان کے منہ پہ مٹی ڈالا جا رہا تھا ۔۔۔

ابا جان اس سے تکلیف دے لمحہ میں نے کبھی زندگی میں نہیں دیکھا ۔۔ ابا جان اس روز آپ مایوسی کو میری مقدر بنا کے چلے گئے ۔ اس روز میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوئی ۔ آخر کیوں ہم اتنے بے بس ہے .. ایک بیماری نے ہم سے ہمارے والد کو چھین لیا ۔ آخر کیوں دنیا میں کینسر جیسے بے رحم بیماری کی دوا موجود نہیں ہے ۔۔میرے والد زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا مگر ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر پائے … وہ زندگی کی جنگ کو اکیلے لڑ رہے تھے شاید جس تکلیف سے وہ گزر رہے تھے وہ اُس تکلیف سے ہمیں نہیں گزارنا چاہتے تھے ۔۔ ابا جان یہ شکوہ عمر بھر رہے گا آپ نے اپنی بیٹی کو بھی نہیں بتایا آپ کینسر سے لڑ رہے تھے ۔اور ایک شکوہ خود سے بھی ہے کہ میں آپ کی آنکھوں کو نہیں پڑ پا وہ مایوسلی جو ان کی آنکھوں میں تھا ۔۔ آخر کیوں ہم اسے محسوس نہیں کر پائے ۔۔ ۔

میرے ابا جان کئی سالوں سے کینسر سے لڑ رہے تھے اور ہم اس بات سے بے خبر تھے ۔ شاید وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے اس بات سے ڈرتے تھے ان کے بعد یہ گھر ویران ہو جائے گا ۔ اس گھر میں مایوسی چھا جائے گی ۔ دو وقت کی روٹی کے لیے ہم در در کی ٹھوکریں کھائیں گے ۔ وہ اس بات سے خوفزدہ تھے ان کے بعد میں اور علی حیدر علم کی روشنی سے دور ہو جائیں گے ۔ ابا جان کینسر آپ کو کھا گئی۔۔۔۔۔دادا جان نے انہیں شہر لانے کا فیصلہ کیا۔ شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔۔دادا نے اپنے بھیڑ بکریاں بیچ کر انہیں علاج کر کرنا چاہا ۔ مگر وہ بھول گئے تھے ۔

ہم بلوچ ہیں ہم اپنے مقدر کا خود فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے یہ سفر شروع ہوا ۔ ابا کو لے کر وہ ڈیرہ غازی خان آئے افسوس یہاں پر کینسر کا ہسپتال تھا ہی نہیں ۔ ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر گھر بھیج دیا۔ ان کے آخری دن ہیں ان کو گھر لے جائیں ۔ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہمارے ابا جان زندگی کی بازی ہار گئے ۔ وجہ صرف اور صرف غلامی تھی ۔ وجہ صرف اور صرف یورینیم تھی ۔ وجہ صرف اور صرف ہم تھے ۔

‎ابا جان مجھے معاف کر دیں ۔۔میں اس دن بھی آپ کے لیے کچھ نہیں کر پائی ۔ اور آج بھی میں اپنے ہم وطنوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی ۔ ابا جان آپ جانتے ہیں ہمارے علاقے میں ہر روز ایک نوجوان کینسر کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے ۔ میری طرح کئی بیٹیاں ہمارے علاقے کی یتیم ہو چکی ہیں ۔ کئی نوجوان عورتیں بیوہ ہو چکی ہے ۔ کئی بوڑھے والدین اپنے تین چار بچوں کے لاشیں اٹھا چکے ہیں ۔ ابا جان کچھ روز پہلے کی بات ہے ۔30 سے 35

برس کی عورت کینسر کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئی ۔ چھ ماہ تک تو ڈاکٹر جان ہی نہیں پائے اس کو کیا بیماری ہے ۔ ڈاکٹروں نے اس کو گردوں کی بیماری کی دوائیاں دی ۔ ٹھیک ہونے کی بجائے یہ دوائیاں اس کی طبیعت کو خراب کر رہی تھی ۔ وفات کے کچھ روز پہلے معلوم ہوا وہ کینسر سے لڑ رہی تھی ۔ اور ہم جان ہی نہیں پائے ۔ وہ تو چلی گئی مگر ایک پیغام ضرور دے کے گئی ۔ تم لوگ میرے لیے کچھ نہیں کر پائے تمہارے لیے بھی کوئی کچھ نہیں کر پائے گا ۔ ابا جان کینسر کے دردناک کہانیاں بہت ہے ۔ کل میری ملاقات اک بلوچ بد قسمت ماں سے ہوئی ۔ جس نے اپنے سینے میں نوجوان بیٹے کے جدائی کا درد رکھا ہوا تھا ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔ اور بتا رہی تھی کچھ روز بعد اس کا شادی تھا ۔ کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا ۔

اس کی بیوی کے زیورات خرید کر رکھے ہوئے تھے ۔ مگر سب کچھ بکھر گیا ۔خالی ہاتھ رہ گئی میں ۔ وہ آنسو جسے دیکھ کر میرا دل پگھل گیا ۔ میں نے اس بوڑھی ماں کی آنکھوں میں شکوہ دیکھا ہے ۔ جو وہ ہم سے کر رہی تھی ۔ ہماری انے والی نسلوں سے کر رہی تھی ۔ ابا جان کینسر ہمیں ختم کرتا جا رہا ہے ۔ اور ہم صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ کوہ سلیمان کے مختلف علاقے تمن لغاری تمن بزدار میں کینسر پھیل چکی ہے ۔ ہم روز بروز اس بیماری کی لپٹ میں ا رہے ہیں ۔ یورینیم گیس کویلا ۔

یہ وہ چیزیں ہیں جو میری سرزمین سے دریافت ہوتی ہیں ۔ جن کی حقیقی وارث ہم ہیں ۔ یہ چیزیں ہمیں فائدہ دینے کی بجائے نقصان دے رہے ہیں ۔ جو یورینیم کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اس کا اچھا حصہ پاکستان کے انڈسٹریز میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور ویسٹج کو ہمارے علاقوں میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ تاکہ ہمیں مارنے میں کے لیے گولی سہارا نہ لینا پڑے ۔ شاید ہمیں انسان نہیں سمجھا جاتا ۔ ابا جان میں سوچتی ہوں میرے لوگ کتنے معصوم ہیں وہ کیوں نہیں سمجھ پا رہے ۔

ہمارا دشمن ہمیں ہر طرح سے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ آخر کیوں میرے لوگ سمجھ نہیں پا رہے ۔ خدا اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے وہ اپنے انسانوں کے ساتھ اتنا جبر نہیں کرتا ۔ یہ جبر کرنے والے انسان ہے ۔ جنہوں نے ہماری سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو بھی ضبط کر لیا ہے ۔ اخر کیوں اج ایک بیٹی یہ سمجھ نہیں پاتی اس کے باپ کو خدا نے نہیں کینسر نے مارا ہے ؟ اخر کیوں آج ایک شوہر یہ بات نہیں سمجھ پاتا اس کے بچوں کو خدا نے یتیم نہیں کیا ۔ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے ہمارے لوگ ذہنی غلام بن چکے ہیں ۔

ابا جان اگر آج ہم اپنے کسی بڑے کے سامنے بول پڑے کینسر صرف بلوچوں کو کیوں مار رہا ہے ۔ وہ نہایت ہی سکون سے جواب دیتے ہیں خدا جسے چاہے زندگی دے یا نہ دے ۔۔۔ابا جان میں بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں میرے ہم وطنوں کے سارے دکھ ساری تکلیفیں ۔ وہ سسکیاں وہ آنسو میرے وطن کے گھروں کا اجڑ جانا ۔ ابا جان میں یہ بات کبھی نہیں بھولوں گی مجھے یتیم کرنے والا میرا مہرباں خدا نہیں تھا ۔ مجھے یتیم کرنے والا خدا کے بندے تھے ۔ میں کبھی نہیں بھولوں گی وہ جب میرے باپ نے زندگی کی آخری سانسیں کس تکلیف اور اذیت میں لی تھی۔ کبھی نہیں بھولوں گی اس عورت کو جو اپنے یتیم بیٹیوں کا اکیلا سہارا تھی ۔ جس کا قتل کینسر نے کیا تھا ۔ میں کبھی نہیں بھولوں گی اس معصوم سے ننھی جان کو جو کینسر سے لڑتے لڑتے شکست کھا گئی ۔ ابا جان میں کبھی نہیں بھولوں گی اس نوجوان کو جس کا بارات اٹھانے کے بجائے جنازہ اٹھایا گیا ۔ میں کبھی نہیں بھولوں گی یہ جو قبروں میں لوگ دفن ہیں انہوں نے شناخت کی سزا کاٹی ہے ۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

خالد مگسی  فائرنگ میں بال بال بچ گئے ، ڈیرہ مراد  خاتون سمیت 2 افراد قتل ،پنجگور میں ایک زخمی

جمعرات مئی 30 , 2024
نصیر آباد رکن قومی اسمبلی اور بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) کے صدر خالد مگسی کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر اور رکن پاکستان اسمبلی خالد مگسی کی گاڑی پر مسلح افراد   کی جانب سے حملہ گیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ انھیں مسلح افراد […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ