ڈاکٹر فاروق بلوچ اور بلوچستان : تحریر : زبیر بلوچ

اگر بلوچستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو بہت قدیم اور ہزاروں سال پرانی ہے اور اس کے باشندے بلوچ قوم ہزاروں سال پہلے یہاں اباد ہیں مگر اس دوران بہت سے لکھاریوں نے بلوچستان اور بلوچ قوم کی تاریخ کواپنےاپنے اندازمیں بیان کیا ہےکیونکہ ان میں سے بہت سے لکھاریوں نے بلوچستان کی تاریخ کو جان بوجھ کر مسخ کیا جب بلوچ قوم کی تاریخ دانوں نے اپنی تاریخ کو خود سے جانچنا شروع کر دیا تو بہت ہی افسوس ناک انکشافات ہوئی ہیںبلوچستان کی ایک تاریخ دان اور لکھاری ہے ڈاکٹر فاروق صاحب جس کی میں جتنا تعریف کروں کم ہے ڈاکٹر صاحب کی تاریخ دانی وطن دوستی اور قوم پرستی کو اپنے لفظوں میں بیان نہیں کر سکوں گا کیونکہ جب بی ای سی بہاولپور کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو پروگرام کے لیے دعوت دی گئی تو میری پہلی ملاقات ڈاکٹر صاحب سے وہاں ہوا ہےجب ڈاکٹر فاروق صاحب سے بلوچستان اور بلوچ قوم کی تاریخ کے بارے میں سوال کیا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی شکوہ اور نفرت بھری لہجے سے جواب دیا ہے میں نے تاریخ میں پڑھا ہے اور بہت سے نشیب و فراز میری سامنے گزری ہیں لیکن میرے خیال میں بلوچستان اور بلوچ قوم کو جتنا برطانیہ نے نقصان دیا ہے اور کسی نے اتنا نہیں دیا( بقول ڈاکٹر صاحب کے کہ اگر میرے وجود کو 36 ٹکڑوں میں الگ الگ کرتے ہیں مجھے جتنا درد نہیں ہوتا جتنا درد بلوچستان کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹنے سے مجھے محسوس ہوتا ہے)ڈاکٹر صاحب کی اس ایک جملے سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو بلوچ اور بلوچستان کتنے عزیز ہیںاب ہم ذرا بلوچ تاریخ کو برطانیہ لکاریوں کے قلم سے دیکھتے ہیںانگریز لکھاری بلوچ کی تاریخ کو کچھ اس طرح بیاں کرتے ہیں کہ جی بلوچ آریا قوم سے ہےاور یہ شام اور حلب سے آیے ہیں اور پر انھوں نے بلوچستان پر ھکمرانی کی ۔

ڈاکٹر فاروق صاحب کی بقول اگر بلوچ قوم عاریہ قوم سے ہے تو عاریہ شام حلب ایران سے ائے ہیں مگر بلوچ کی بلوچستان میں 12 ہزار سال پرانی نشانیاں موجود ہیں وہی کلچر جو اج بلوچوں کا ہے وہی کلچر 12ہزار سال پہلےبلوچستان کے سر زمیں پر رہنے والے لوگوں کا تھا بلوچستان میں اس طرح کے چیزیں اور بھی بحت دریافت ہوئے ہیں اریان کو چارہزار سال سے بلوچستان میں اباد ہے اس سے پہلے کون اباد تھا ادھر تو بلوچستان کے جو قدیم اثار موجود ہیں یہ تو 12 ہزار سال پہلے بلوچوں کے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اریان سے پہلے بلوچستان میں بلوچ اباد تھےہاں یہ ہو سکتا ہے شاید اریایون نے چار ہزار سال پہلے بلوچوں کے اوپر حکومتی کی ہے مگر بلوچوں نے ان کو بعد میں پھر سے نکال دیا ہے یہ سوال اب پیدا ہوتا ہے کہ جب بلوچوں کی 12 ہزار سال پرانی تاریخ ہے تو کیوں بلوچ کے ساتھ اس طرح ناانصافی ہوئی ہے اور یہ نانصافی کس نے کیے اور کیوں کیا اس کی وجہ کیاہے یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی قوم بھی دوسری قوم کے اوپر قبضہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی تاریخ کو اس کی کلچر کو اس کی ثقافت کو سرزمین کو ختم کرتا ہے سرزمین کو ٹکڑوں میں بانٹتا ہے تاکہ وہ قوم دوبارہ سے اٹھنے کے قابل نہ ہو ۔ دوبارہ وہ قوم اٹھ نہ سکے اور یکجا نہ ہو ایک تقسیم کی ہوئی زمین کو اور قوم کو دوبارہ اٹھنے کے لیے اکٹھا ہونا اور یکجا ہونا پڑتا ہے اور وہ یکجا تب ہوگا جب اس کو ایک کلچر ہوگا زبان ہوگا قوم ہوگا سرزمین ہوگا تب وہ جا کے یکجا ہو جائے گا اور جو قابض قوم ہے اس کے ڈی کالوناہیزڈ قابض کے ساتھ لڑائی کرے گا کہ اپ نے میرے سرزمین کو قبضہ کیا ہوا ہے مجھے اور میری ثقافت کو روند ڈالا ہے۔ مگر بدقسمتی سے قابض اتے ہی پہلے مظلوم قوم کی ان چیزوں کو مسخ کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اٹھ کر یکجا نہ ہو اور مزید اس قوم کو لانگ پروسس کے لیے غلام بنائیں مگر ایک دفعہ پھر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ نے اتنا بڑا ظلم بلوچ قوم پر کیوں کیا ہے ؟جب برطانوی انگریز نے پوری ایشیا پر راج کرنا چاہا تو اس نے ہندوستان کو اپنے قبضے کیا پھر وہاں سے افغانستان پر قبضہ جمانا چاہا تو اس نے افغانستان پر چڑھائی کرنے کے لیے بلوچستان کے راستے کا انتخاب کیا اور انگریز کی تنگ ٹینکوں کی یہ ذہن میں نہیں تھا کہ یہاں سے گزرنے کے لیے ہمیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے سن 1800 کے دور میں جب برطانیہ نے بلوچستان کے راستے سے افغانستان پر قبضہ کرنے کی نیت کی تو انگری،کواس وقت سب سے پہلے ایک بلوچ کی بندوق کا سامنا کرنا پڑا تو بہت سے نقصانات کے بعد گوروں کو وہیں سے واپس ہونا پڑا اور دو تین دفعہ انگریز نے کوشش کی کہ میں جاؤں افغانستان پر قبضہ کروں اور ہر وقت اس کو منہ کی کانی پڑی پھر اس کے بعد انگریز نے یہ سوچا کہ افغانستان جانے سے پہلے مجھے بلوچ قوم کو قابو کرنا چاہیے وہ جنگ سے تو ہر حال میں مشکل تھا کیونکہ بلوچ شروع سے بڑا جنگجواور پہاڑی قوم ہے پھر برطانوی نے بڑی چالاکی سے بلوچ قوم کو کمزور کرنے کی تدابیریں سوجی اور بلوچ کو وحیشی کرار دے دیا۔

12 ہزار سال پرانی تاریخ کو مسخ کیا ہزار سال پہلے اریان سے ملا دیا اور سرزمین کو افغانستان ایران پاکستان میں بانٹا اور پوری قوم کو تباہ کیا اور اس کی کلچر۔ زمین کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو تباہ کیا اس دن سے اج تک بلوچ زوال ہے اور اس دوران بلوچ نے بہت دفعہ اٹھنے کی کوشش کی مگر جب ایک قوم کی کلچر زمین کو ختم کیا جاتا ہے تو دوبارہ یکجا ہونے کے لیے بہت وقت درکار ہوتا ہے اور وہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد آج بلوچ قوم اپنی سر زمیں کی دفاع کر رہی ہے قوم کو ایک حد تک یکجا کیا ہوا ہے اگر آپ بلوچ اور بلوچستان کی حقیقی تاریخ کو سمجھنا اور پڑھنا چاہتے ہو تو ڈاکٹر فاروق صاحب کو ضرور پڑھیں( بلوچ اور ان کا وطن) اس کے علاوہ بارہ 13 اور کتابیں ہیں ڈاکٹر صاحب کی کتابوں میں اپ تاریخ بلوچستان تاریخ بلوچ کو اچھی طریقے سے سمجھ سکتے ہو کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے بلوچ تاریخ کو دوبارہ ڈونڈھنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اگر ڈاکٹر صاحب کو تاریخ بلوچستان کا نام دیا بھی جائے تو ڈاکٹر صاحب کی محنتوں کے سامنے یہ بہت کم ہے ڈاکٹر صاحب کی بلوچ قوم جتنی قدر اور عزت کرے کم ہے

کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے بلوچ اوربلوچستان کی باراہزر پرانی تاریخ بلوچ قوم کو واپس دلایا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ بلوچستان کی تاریخ کو دو شخصوں میں بیان کرو تو ایک شاعر آشوب واجہ ابامبارک قاضی ہے دوسرا ڈاکٹر فاروق صاحب ہوگا ڈاکٹر فاروق بلوچستان اور بلوچ تاریخ کا ماضی اور حال ہے ان کے قربانی اور قوم پرستی کا جذبہ بلوچ قوم کے لیے مشعل راہ ہے انہوں نے کبھی نام شہرت تعریف کے لیے قوم پرستی نہیں کیے انہوں نے جتنی قربانیاں دی ہے قوم کے لیے دی ہے انکی ہر لفظ بلوچستان کی سرزمیں پر منصرہے وطن سے محبت کی درس دیتے ہیں۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

تربت نیول ائیربیس میں مجید بریگیڈ داخل ہونے میں کامیاب ۔ بی ایل اے

پیر مارچ 25 , 2024
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا کہ مجید بریگیڈ تربت میں نیول ائیر بیس پر حملہ کرکے حفاظتی حصار توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ حملہ آج شب دس بجے کیا گیا۔ قابض فوج کیخلاف مجید بریگیڈ کا آپریشن جاری ہے۔ اس حملے کی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ