شہری سول ہسپتال پہنچ جائیں تاکہ ہم جعلی مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی نعشیں آسانی سے لے سکیں جن پر ریاست دہشت گردی کا لیبل زبردستی چسپان کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی پریس کانفرنس

شہری سول ہسپتال جمع ہوجائیں تاکہ ہم جعلی مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی نعشیں آسانی سے لے سکیں جن پر ریاست دہشت گردی کا لیبل زبردستی چسپان کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی پریس کانفرنس

شال بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سول ہسپتال شال میں پرہجوم پریس کانفرنس دوران کہاکہ ‏‎آپ اس حقیقت سے آگاہ ہونگے کہ گزشتہ دو مہینے سے زائد عرصے تک بلوچستان انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور بلوچ نسل کشی جس میں سرفہرست مسئلہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے خلاف کیچ سے شال اور پھر شال سے دھرنے کی شکل میں اسلام آباد میں مارچ کیا گیا اور بلوچستان کے ہرشہر اور گاؤں سے ہزاروں لوگوں نے ریاستی ظلم اور جبر کے خلاف سڑکوں کا رخ کرتے ہوئے ریاست کی ان ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کیا ، لیکن بلوچ عوامی ردعمل کے باوجود ریاست بلوچستان میں اپنی پالیسیوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہے۔

لانگ مارچ میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس امید اور بھروسے سے مارچ میں حصہ لیا تھاکہ ان کے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہ کیا جائے، لیکن بدقسمتی سے ریاست بلوچستان کے حوالے سے اپنی ظالمانہ اور جابرانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ حالیہ مچھ واقعے کے بعد جس طرح زندان سے لاپتہ افراد کو نکال کر قتل کیا گیا یہ ظلم اور جبر کی انتہاءہے۔

ریاست مسلح افراد کی کارروائیوں کو جواز بناکر لاپتہ افراد کو قتل کرکے غیر انسانی عمل کا ارتکاب کر رہی ہے۔ ریاست ایک جھوٹے بیانیے پر بلوچ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں کہ لاپتہ افراد پہاڑوں پر ہے لیکن حقیقت اس کا بلکل برعکس ہے۔ جو لوگ مسلح لڑائی لڑ رہے ہیں ان کیلئے کبھی بھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے نام لاپتہ افراد کے لسٹ میں موجود ہے۔ ریاست سمجھتی ہے کہ بلوچستان میں مسلح جدوجہد کو جواز بنا کر جبری گمشدگی کے شکار افراد کا قتل عام کرو اور اس قتل عام کو جھوٹے بیانیہ کے ذریعے متنازعہ کیا جائے لیکن ہم ریاست پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماروائے عدالت قتل کرنے پر ہم کسی بھی صورت خاموشی اختیار نہیں کریں گے۔

‏‎بی وائی سی رہنماء نے کہاکہ ‏‎مچھ واقعے میں جتنے بھی مسلح افراد شامل رہے ہیں ان میں سے کسی ایک شخص کا نام بھی لاپتہ افراد کے لسٹ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے خاندان نے ان کے جبری گمشدہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ریاست بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افراد اٹھاتی ہے، انہیں دو مہینے، چار مہینے حتی کہ کئی افراد کو سالوں تک خفیہ زندانوں میں قید رکھا جاتا ہے ، اور بعدازاں انہیں رہائی حاصل ہوتی ہے۔ جن کی رہائی کی خبریں میڈیا اور لواحقین کی جانب سے شائع بھی کی جاتی ہیں ۔

اگر ان افراد کی تعداد کا اندازہ لگائیں جنہیں ریاست نے لاپتہ کرتے ہوئے اذیت دے کر چھوڑ دیا ہے ان کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ ہماری جبری گمشدگی کے حوالے سے اصولی موقف اپنی جگہ قائم ہے کہ جبری گمشدگی اقوام متحدہ سمیت ازخود پاکستان کے اپنے آئین و قانون کے مطابق سنگین جرم ہے ۔ اگر ریاست کسی شہری کو مجرم سمجھتی ہے یا اس شہری پر کسی بھی قسم کا کوئی الزام ہے تو ریاست کے پاس عدالتیں موجود ہیں، ملکی قانون کے تحت انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ عدالتیں اور قانون فیصلہ کرے کہ یہ لوگ بے گناہ ہے یا مجرم ہے اگر ان پر کوئی بھی جرم ثابت ہوتا ہے تو انہیں سزا دینے کے لیے عدالتیں موجود ہیں لیکن اس طرح غیر قانونی طور پر لوگوں کو جبری طور پر گرفتار کرکے انہیں مہینوں اور سالوں خفیہ زندانوں میں قید رکھنا اور کسی بھی مسلح کارروائی کی رد عمل میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو حراست سے نکال کر قتل کرنا نا بلکہ انسانیت کی دھجیاں اڑانے کے برابر ہے بلکہ ریاستی قانون اور آئین کو بھی روندنے کے مترادف ہے۔

‏‎
ڈاکٹر ماہ رنگ نے پریس کانفرنس دوران کہاکہ
‏‎ مچھ واقعے کے بعد اس وقت 5 افراد کی ایسی نعشیں لائی گئی ہیں ، جن میں سے 4 نعشوں کی شناخت انکے لواحقین نے کی کیا ہے ۔ جو پہلے سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدہ تھے۔ جبکہ پانچویں نعش جو بری طرح مسخ کیا گیا ہے کے حوالے سے بھی ہمیں خدشہ ہے کہ وہ بھی جبری گمشدگی کے شکار افراد میں سے ہیں ۔ جن چار نعشوں کی شناخت ہوگئی ہے ان میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری جنہیں 2 جولائی 2023 کو جبری طور پر اٹھایا گیا تھا ، اور صوبیدار ولد گلزار خان کو ہرنائی بازار سے 9 ستمبر 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا ۔ جن کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور چوتھی نعش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زہری سے ہواہے ، جن کے خاندان کے مطابق انہیں 4 جون 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔ اور ان کے جبری گمشدگی کے تمام تر ثبوت موجود ہیں ۔

انھوں نے کہاکہ لواحقین کے بچوں کو زندہ و سلامت رہا کرنے کے بجائے ان کے نعشیں پھینکی گئی ہیں اور آج وہ لواحقین یہاں اپنے پیاروں کی نعشیں اٹھانے آئے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست بلوچستان میں پرامن جدوجہد کی تمام راہیں بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاکہ لوگ ریاست سے مایوس ہوں۔ دوسری جانب سول اسپتال میں لائی گئی لاشوں کیلئے آنے والے خاندان کو جس طرح ذہنی کوفت سے گزارا گیا وہ قابل افسوس ہے۔ آج بلوچستان میں ریاست کے حوالے سے بڑھتی مایوسی کا زمہ دار ریاستی ادارے ہیں۔ جو مسلسل غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیوں کے ذریعے بلوچستان میں خوف پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ارمان مری اور بشیر مری کے لواحقین اس امید سے اسلام آباد آئے تھے کہ انہیں اس ریاست سے انصاف ملے گا ،جو کہ ہر شہری امید رکھتی ہے۔ لیکن انصاف کے بجائے انہیں ان کے بچوں کی مسخ شدہ نعشیں ملی ہیں جبکہ ان میں سے ایک نعش اتنی مسخ کی گئی ہے کہ اس کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے۔ جو بلوچ دشمنی اور بلوچوں سے نفرت کی واضح مثال ہے۔

بی وائی سی رہنماء نے کہاکہ جن پانچ لاشوں کو کل سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا ہے ان کے حوالے سے ریاستی ادارے یہ جھوٹا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ پانچ افراد مسلح تھے اور مچھ واقع میں مارے گئے ہیں ۔ لیکن ریاست اس چھوٹی سی بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جھوٹے بیانیہ بنانے سے ریاست اپنے مظالم اور جبر کو چھپا نہیں سکتی ہے۔ ان پانچ افراد میں سے دو کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی شناخت کی ہے جو پہلے سے جبری گمشدہ تھے اور ان کی جبری گمشدگی کے تمام تر ثبوت موجود ہیں۔

انھوں نے کہاکہ ایک اور بات ہم ریاستی اداروں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جو دو خاندان کل سے یہاں سول ہسپتال میں موجود ہیں جن کے بچوں کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا ہے ان خاندان کو اپنے بچوں کے نعشیں لینے کے لیے زبردستی ایک غیر قانونی فارم دستخط کرنے کے لیے دیا جارہا ہے جس میں زبردستی ان کے بچوں کو دیشتگرد ثابت کیا جارہا ہے۔ لہذا جن جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا ہے ان کے خاندان کسی بھی صورت اس غیر قانونی فارم کو دستخط نہیں کریں گے۔

‏‎خاتون رہنما ء نے کہاکہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت بلوچ قوم کی نسل کشی جاری ہے اور اس میں روز بروز شدت لائی جا رہی ہے۔لاپتہ افراد کو پھر جعلی مقابلوں میں قتل کرکے ریاست نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گا۔ ہم اقوام متحدہ سمیت ہیومن رائٹس اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ان واقعات کا نوٹس لیں جبکہ بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر خاموشی کے بدلے سیاسی جدوجہد کی راہ اپنائیں۔

پریس کانفرنس دوران ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ جہاں تک مسلح افراد کا مچھ واقع میں مارے جانے کا تعلق ہے ہم نے بی وائی سی کی جانب سے تاحال کوئی موقف پیش نہیں کیاہے ۔ ہم اس وقت جبری لاپتہ افراد کے پانچوں نعشیں لواحقین کے ساتھ مل کر لینے آئے ہیں ۔ جہاں تک ایک نعش کی بات ہے یہ ریاست کی ذمہداری ہے کہ وہ اس کا ڈی این اے کریں کہ وہ کون ہے ۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہاکہ اس وقت ہم انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت شہریوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ شال سول ہسپتال جلد از جلد پہنچ جائیں تاکہ ہم جعلی مقابلے میں ھلاک کیے جانے والے اپنے پیاروں کی نعشیں لیکر ان کے لواحقین کے حوالے پر امن طریقے سے کراسکیں ۔

ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ سول ہسپتال انتظامیہ ریاستی اشارہ پر لواحقین سمیت ہمیں ہسپتال کے اندر جانے نہیں دی رہی ہے تاکہ ہم مزید نعشیں دیکھ کر شناخت کر سکیں۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

تربت: جبری گمشدگیوں کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری

پیر فروری 5 , 2024
تربت: جبری گمشدگیوں کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ