کراچی بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ حکومت و حکومتی ادارے ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے سلجھانے کے بجائے آئے دن اپنے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے ایف۔آئی۔آر و ہراساں کرکے مسئلے کو مزید الجھا رہی ہے۔ اور طاقت کا استعمال کرکے ہمیں اور ہمارے جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔لیکن اس سے ہم مزید محکم و مضبوط ہوتے جا رہے ہیں ۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جاری تحریک کا تیسرا فیز جاری ہے جس میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں پر امن احتجاجی مظاہرے منعقد کیے جا رہے ہیں، اسی فیز کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) نے کراچی میں 7 جنوری بروز اتوار کوملیر کراچی میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جہاں 15 لوگوں کی نامزدگی کے ساتھ ایف۔آئی۔آرز کاٹے گئے اور ان کے بشمول 1500 لوگوں کے نام نا معلوم افراد میں شامل کئے گئے جس کے بعد اگلے روز تمام ساتھی وکلاء کے ساتھ ملیر کورٹ میں پیش ہوئے اور ان کو ملیر سیشن کورٹ نے با عزت ضمانت کرکے بری کردیا۔
ترجمان نے مزید کہا ہےکہ بات یہاں تک ختم نہیں گزشتہ روز یعنی بتاریخ 12 جنوری بروز جمعہ کو لیاری میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی)کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں لیاری کے ذی شعور لوگوں کا ایک سیلاب امڈ آیا جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ یہ وہی لیاری ہے، جس نے لیڈرز کی تربیت و پرورش کی یہ وہی لیاری ہے جس کو ریاست و حکومت نے نوچ نوچ کر اس کی رعنائی کو ختم کرنے کی کوشش کی یہ وہ لیاری ہے، جس کے لئے شاعروں نے اپنے دیوان مصنف نے اپنے تصنیف قلم بند کئے۔
یہ وہ لیاری جس کو جبراً خاموش کرانے کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے رہے لیکن کل جو لیاری نے مزاحمتی رنگ اپنایا وہ صباء دشتیاری کا لیاری تھا، وہ ایک سوچ رکھنے والا لیاری تھا وہ ایک با شعور لیاری تھا، لیکن یہ تمام تر چیزیں حکومت و حکومتی اداروں کو نا قابلِ برداشت ثابت ہوئیں اسی لئے انہوں نے وہی کیا جو و ہ کر سکتے تھے، وہی پرانا انداز اور رویہ کہ پکڑ دھکڑ سے ان کو خاموش کرایا جائے۔
انھوں نے تفصیلات بتاتےہوئے کہاہے کہ ریلی پر امن طریقے سے جب اپنے اختتام تک جا رہی تھی تو میراں ناکہ پل پہ اس ریلی کو روک لیا گیا اور سندھ پولیس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ہم آپ کو اس سے گے جانے نہیں دیں گے۔ 2,3 گھنٹے گزرنے کے بعد جب ریلی ماریپور روڈ کی جانب رواں دواں ہوئی اور اختتام پذیر ہوئی اس کے بعد جو حکم میرے آقا کی پیروی کرتے ہوئے سندھ پولیس نے سب سے پہلے اسپیکر والے مزدے کو اس میں سوار لوگوں کے ساتھ گرفتار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پروفائلنگ کرتے ہوئے ان کو راتوں رات مختلف جگہوں سے گرفتار کیا گیا ۔ رات بھر پولیس بھاری نفری کے ساتھ لیاری میں مختلف علاقوں سے لڑکوں کی شناخت کرتے ہوئے گرفتاریاں کرتے رہے، جس میں ایف۔آئی۔آرز کی صورت میں 500 لوگوں پر ایف۔آئی۔آر کاٹے گئے اور ان میں سے 35 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ۔ جن میں سے 15 کو صبح بطور ضمانت چھوڑدیا گیا اور باقی 20 افراد کو جیل میں منتقل کیا گیا۔
یاد رہے اس وقت جس طرح سے پر امن مظاہرین کو گرفتار کیا جا رہا ہے یہ خود ملک و آئین کے قانون کے خلاف ہیں اور یہ تمام احتجاج ملکی آئین و قانون کے تحت کئے جا رہے ہیں، ملکی آئین و قانون کے تحت تمام افراد کو اظہار رائے آزادی، لفظی و تحریری حق حاصل ہے اور اسی طرح اس ملک میں رہنے والے ہر ایک انسان کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق کی خاطر احتجاج کر سکتا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ ہمارے آئینی مطالبات ہیں ان کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ہم ملک بھر میں موجود عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پر امن مظاہرین کی حفاظت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور موجودہ رویہ جو کہ ایف۔ آئی۔آرز و ہراساں کرنے کی صورت میں جاری کیا گیا ہے اس کو جلد از جلد ختم کیا جائے، ہم ہائی کورٹ و سپریم کورٹ سمیت ملک میں موجود عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔