
امریکہ نے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں جن میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کو “کامیاب اور ضروری” قرار دیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق، حملے میں فرڈو، نطنز اور اصفہان کے مقامات پر قائم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی محکمہ دفاع کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حملے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے اور اسرائیل پر میزائل حملوں کے ردعمل میں کیے گئے۔
ایرانی حکام کے مطابق، متاثرہ تنصیبات کو پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا، اس لیے جانی نقصان نہیں ہوا اور جوہری مواد محفوظ رہا۔ ایرانی وزارتِ خارجہ نے حملوں کو “جارحیت اور عالمی امن کے لیے خطرہ” قرار دیتے ہوئے شدید ردعمل کی دھمکی دی ہے۔
ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کے فوراً بعد ایران نے اسرائیل کی بعض تنصیبات پر جوابی میزائل حملے کیے، جن میں چند افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل اور سفارتی حل اپنانے کی اپیل کی ہے۔ یورپی یونین اور روس نے بھی امریکہ کے اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے فیصلے پر سیاسی حلقوں میں تقسیم دیکھی جا رہی ہے۔ ڈیموکریٹس نے حملے کو کانگریس کی منظوری کے بغیر غیر آئینی اقدام قرار دیا، جبکہ ریپبلکنز نے اسے قومی سلامتی کا دفاع قرار دے کر سراہا۔
مبصرین کے مطابق یہ حملے مشرق وسطیٰ کو مزید عدم استحکام کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی نظریں ایران کے ممکنہ جوابی اقدام اور عالمی برادری کی سفارتی کوششوں پر مرکوز ہیں۔